وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب (عذاب کی) بات پوری ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ (فلاں فلاں) لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے
فہم القرآن: ربط کلام : اندھے، بہرے اور حق سے بھاگنے والے لوگ قیامت سے پہلے حق بات کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اندھے، بہرے اور حق بات سے دور بھاگنے والے قیامت سے پہلے حق بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ قرآن و حدیث میں قیامت کی تین قسم کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو نبی کریم (ﷺ) کے دور میں مکمل ہوچکی ہیں۔ دوسری وہ ہیں جو قرب قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی۔ تیسری نشانیاں وہ ہیں جو قیامت کی شروعات میں شمارہوتی ہیں وہ اس طرح نمودار ہوں گی جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو تسبیح کے دانے ایک دوسرے پر گرتے چلے جاتے ہیں۔ آخر میں تین نشانیاں وہ ظاہر ہوں گی جب توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ ان نشانیوں میں سے ایک نشانی ’’دابَّۃُ الْأَرْضِ‘‘ ہے۔ یہ ایسا جانور ہوگا جو قیامت پر یقین نہ رکھنے والوں سے کلام کرے گا۔ ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ جانور اس وقت ظاہر ہوگا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے جس میں فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود نبی (ﷺ) سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب لوگ امر بالمعرو ف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ساتھ آخری حجت قائم فرمائے گا، یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا اس کی جنس کے لاکھوں، کروڑوں جانور ہونگے۔ ”دَابَۃٌ مِنَ الْاَرْضِ“ کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے بہرحال وہ لوگوں سے کلام کرے گا۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کونسا ہوگا ؟ اس کے متعلق نبی (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ ” آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا۔ ان میں سے جو نشانی بھی پہلے ہو۔ بہرحال دوسری نشانی اس کے قریب تر ہوگی۔ ( مسلم) رہا کسی جانور کا انسانوں سے کلام کرنا یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت عطا کر۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور کو ہی نطق بخشے گا۔ مگر جب قیامت قائم ہوجائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ثَلاَثٌ إِذَا خَرَجْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّۃُ الأَرْضِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَان الزَّمَنِ الَّذِی لاَ یُقْبَلُ فیہِ الإِیمَانُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ” تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا الا یہ کہ وہ پہلے سے ایمان لا چکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ 1 ۔سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، 2 ۔دجال کا نکلنا 3 ۔دابۃ الارض کا ظاہر ہونا۔“ مسائل: 1۔ قرب قیامت زمین سے ایک جانور نمودار ہوگا جو لوگوں سے کلام کرے گا۔ 2۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو یقین ہوجائے گا کہ اب قیامت آہی چکی ہے۔ تفسیربالقرآن : قیامت کی چند بڑی بڑی نشانیاں : 1۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ:1) 2۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 3۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) 4۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 5۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ :4) 6۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ:5) 7۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود :26) 8۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : 3، 4) 9۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر پر اگندہ غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: 5، 6) 10۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ :4) 11۔ زمین و آسمانوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ( ابراہیم :48)