قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
وہ کہنے لگے ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں [٤٧] ( صالح نے) کہا : ’’تمہاری نحوست تو اللہ کے پاس ہے بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم لوگ آزمائش [٤٨] میں پڑے ہوئے ہو‘‘
فہم القرآن: ربط کلام : قوم کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پر اوپیگنڈا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے خلاف زور و شور کے ساتھ پر اوپیگنڈہ کیا کہ جب سے صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ کام شروع کیا ہے قوم کا اتحاد ختم ہوا اور گھر گھر اختلاف پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمارا دن رات کا سکون لٹ گیا ہے شعیب اور اسکے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ یہ نحوست ہماری وجہ سے نہیں بلکہ تمھاری وجہ سے ہے۔ تمھیں اپنے فکر و عمل پر غور کرتے ہوئے یہ بات سوچنی چاہیے کہ تم بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو۔ آزمائش سے مراد حق و باطل کی آویزش اور اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے جس سے صالح (علیہ السلام) نے انھیں یہ کہہ کر آگاہ کیا تھا۔ اگر تم نے توبہ استغفار نہ کیا تو ٹھیک تین دن کے بعد تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یقُوْلُ لَا طِیَرَۃَ وَخَیرُھَا الْفَالُ قَالُوْا وَمَا الْفَالُ قَالَ الْکَلِمَۃُ الصَّالِحَۃُ یَسْمَعُھَا اَحَدُکُمْ۔) [ رواہ البخاری : باب الجذام ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا‘ آپ نے فرمایا بد شگونی جائز نہیں البتہ فال بہتر ہے صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا کہ فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا‘ اچھا کلمہ جو تمہیں سنائی دے۔ مسائل: 1۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیا۔ 2۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آزمائش سے آگاہ فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن: آزمائش کی شکلیں اور انبیاء پر منحوس ہونے کا الزام : 1۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت :3) 2۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 3۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 4۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ:155) 5۔ آل فرعون نے کہا موسیٰ اور اس کے ساتھی منحوس ہیں۔ ( الاعراف :131) 6۔ قوم نے تین پیغمبروں کو منحوس قرار دیا۔ ( یٰس : 18۔19)