وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ : اللہ کی عبادت کرو۔ تو اسی وقت وہ دو فریق [٤٥] (مومن اور کافر) بن کر جھگڑنے لگے۔
فہم القرآن: (آیت45سے46) ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر۔ جونہی حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ توحید خالص کا انکار کرنے والے لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں سے جھگڑنے لگے۔ جوں ہی صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ایک گروہ ایمان لانے والوں کا اور دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زبردست کش مکش شروع ہوگئی جس طرح قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ارشادفرمایا ہے : ﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْن قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْن﴾[ الاعراف : 75۔76] ” اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی پر فخر کرتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو کمزور بنائے گئے تھے کیا واقعی تم جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کارسول ہے ؟ ایمان والوں نے جواب دیا ہم اس دعوت پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ حضرت صالح (علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں۔ متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کا ہم تو انکار کرتے ہیں۔“ (الاعراف : 75۔76) حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم بغاوت میں یہاں تک آگے بڑھی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کی بجائے صالح (علیہ السلام) سے بار بار یہ مطالبہ کیا اگر آپ واقعی اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی انہیں بار بار پھر سمجھایا کہ اے میری قوم تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ کہ تم اللہ تعالیٰ کا کرم مانگنے کی بجائے اس کا عذاب مانگ کر رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کی بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ” اَلْحَسَنَۃٌ“ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں” السیئۃ“ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہویا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لیے” السیئۃ “کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی سیئۃ کہا جاتا ہے۔ مسائل: 1۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توحید خالص کی دعوت دی تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 2۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بار بار ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ 3۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توبہ و استغفار کے لیے کہا لیکن وہ اپنے کفر و شرک پر قائم رہے۔ تفسیر بالقرآن: توبہ و استغفار کے فائدے : 1۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود :3) 2۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود :52) 3۔ تم اللہ سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود :61) 4۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : 10۔12) 5۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل :20) 6۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال :33)