قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اس ملکہ سے کہا گیا کہ ’’محل میں چلو‘‘ جب اس نے دیکھا تو سمجھی یہ پانی کا ایک حوض ہے چنانچہ اپنی پنڈلیوں [٤٢] سے کپڑا اٹھالیا۔ سلیمان نے کہا : ’’یہ تو شیشے کا چکنا فرش ہے۔‘‘ تب وہ بول اٹھی : ’’اے میرے پروردگار! میں (سورج کی پوجا کرکے) اپنے آپ [٤٣] پر ظلم کرتی رہی ہوں اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین [٤٤] کی اطاعت قبول کرلی‘‘
فہم القرآن: ربط کلام : ملکہ بلقیس کو حقیقت کا مزید ادراک کرانے کے لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک اور حکیمانہ کوشش۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس کے تحائف مسترد کیے اور اسے ان الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر تم نے تابعداری اختیار نہ کی تو ہم تمھیں رسوا کر ڈالیں گے لیکن جونہی ملکہ بلقیس اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انھوں نے اسے مسلمان کرنے کے لیے جبر کی بجائے حکمت کا انداز اختیار فرمایا۔ پہلے اس کے تخت میں تبدیلیاں کروائیں، پھر ملکہ سے اس تخت کے بارے میں استفسار فرمایا۔ ملکہ نے بغیرکسی دقّت کے اپنا تخت پہچان لیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے تھے اسے کھل کر سابقہ عقیدہ کے باطل ہونے کا ادراک ہوجائے۔ اس لیے انھوں نے ملکہ اور اس کے وفد کو ایسے محل میں ٹھہرنے کا حکم دیا کہ جس کے میں دروازے کے سامنے شیشے کا فرش لگا ہوا تھا۔ ملکہ نے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے پانچے اوپر کرلیے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے توجہ دلائی کہ پانی نہیں بلوری فرش ہے۔ اس بات سے اس کے دماغ پر ٹھوکر لگی اور فوراً کہہ اٹھی اے میرے رب میں نے تیرے ساتھ شرک کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ اس رب کی تابع ہوئی جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے شیشے کے فرش کے ذریعے یہ حقیقت باور کروائی کہ شرک ایک واہمہ ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دانا عورت تھی اشارہ سمجھ کر فوراً توحید باری تعالیٰ کا اعتراف کرتی ہے اور مسلمان ہوگئی۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کے تحت لکھا ہے کہ اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے اپنے حرم میں شامل کرلیا۔ (اللہ اعلم ) البتہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد تاریخ سے اس کی حکمرانی ثابت نہیں ہوتی۔