قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ
(یہ خط سنا کر) ملکہ کہنے لگی : ’’اے اہل دربار! میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو میں کسی معاملہ کو طے نہیں کیا کرتی۔‘‘
فہم القرآن: (آیت 32سے35) ربط کلام : ملکہ بلقیس کا اپنی قوم کے زعماء کے سامنے خط پڑھ کر مشورہ لینا اس پر قوم کا ردِّ عمل۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ ملکہ اور اس کا انداز حکمرانی کیا تھا۔ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پڑھنے کے بعد قوم کے نمائندوں سے کہا کہ مجھے اس معاملہ میں مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں تمھارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ انھوں نے خط کا مضمون سن کر فوری ردِّ عمل دیا کہ ہم طاقت ور اور شدید لڑائی لڑنے والی جنگجو قوم ہیں اس لیے ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاہم آپ ہماری حکمران ہیں آپ کو ہر قسم کے آئینی اختیارات ہیں۔ لہٰذا غور و فکر کرکے فرمائیں کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے۔ ملکہ نے قوم کے نمائندوں کے حوصلہ اور جرأت دیکھنے کے باوجو دٹھنڈے دل اور نرم لب و لہجہ سے انھیں سمجھایا کہ یاد رکھو حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ جب وہ کسی بستی اور علاقہ پر یلغار کرتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ جنھوں نے ہمیں خط لکھا ہے اگر وہ کامیاب ہوئے تو ہمارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اس کی بجائے میں ان کی طرف کچھ تحائف بھیجتی ہوں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے نمائندوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ملکہ سبا نے خط کے مضمون اور دیگر ذرائع سے معلوم کرلیا تھا کہ ہماری مضبوط حکومت کو جو شخص انتباہ اور ہمیں اپنی تابعداری کا حکم دے رہا ہے وہ کوئی معمولی حکمران نہیں اس لیے اس نے کہا کہ جنگ کرنے سے پہلے تحائف بھیجے جائیں۔ تحائف بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) نے تحائف قبول کرلیے اور خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تو پھر ہمیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ دنیا پرست حکمران کو مذاکرات کے ذریعے رام کرنا آسان ہوگا۔ مسائل : 1۔ ظالم بادشاہ دوسروں کی عزت کا خیال نہیں کیا کرتے۔ 2۔ کسی کو جانچنے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔