قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
آپ کہئے : اے اللہ ! ملک کے مالک! جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس [٣٠] سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ تو ہی جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے (اور) تو یقیناً ہر چیز پر قادر ہے
فہم القرآن : (آیت 26 سے 27) ربط کلام : اہل کتاب اسلام کی عظمت، غلبہ اور نبی محترم (ﷺ) کی عزت ختم کرنے کے درپے ہیں جب کہ عزت وذلت، اختیارواقتدار، موت وحیات اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ یہودی اپنے آپ کو سلسلۂ نبوت کا وارث سمجھتے ہیں جس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لٹکانے کی سازش کی اور اسی بنا پر یہ رسول محترم (ﷺ)، اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کے درپے ہوئے اور رہتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں سب سے پاک، معزز اور اللہ تعالیٰ کے مقرب یہودی ہیں لہٰذا جب بھی غلبۂ اسلام یا مسلمانوں کی عزت واقبال کی بات ہو تو یہ لوگ اپنے آپ سے باہر ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانے میں ان کا حسدوبغض اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ جب کبھی مسلمانوں کو تابناک مستقبل کے بارے میں خوشخبری سنائی جاتی تو یہودی طعنہ زن ہوتے کہ جنہیں پہننے کے لیے کپڑا، کھانے کے لیے روٹی، سر چھپانے کے لیے مکان میسر نہیں اور جن کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں کیا یہ لوگ سلطنت رومہ پر قابض اور ایران کے فاتح بنیں گے؟ ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے آپ (ﷺ) کو یہ عظیم دعا سکھلائی گئی جو دعابھی ہے مستقبل کی پیش گوئی بھی اور مسلمانوں کے عقیدے کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔ اس میں مسلمان اپنے مولا کے حضور اس خواہش کا اظہار اور فریاد کرتا ہے کہ الٰہی! اس لا محدود اور بے کنار مملکت کا تو ہی مالک اور بادشاہ ہے تیرے اختیار میں ہے کہ تو گداؤں کو بادشاہ بنادے اور بادشاہوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردے۔ عزت والوں کو ان کی سر مستیوں کی وجہ سے ذلیل کردے اور لوگوں کی نظروں میں ناچیز اور حقیروں کو معزز اور محترم ٹھہرادے۔ پوری کی پوری خیر تیرے ہی قبضہ میں ہے بلاشک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لیکن یہودیوں کی طرح کتنے لوگ اور حکمران ہیں جو ”أَنَا وَلَا غَیْرِیْ“ کے نعرے لگاتے ہیں کہ ہمارے اقتدار اور اختیار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ ہماری طرف بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔ لیکن جب احکم الحاکمین کا فیصلہ صادر ہوا تو جو ہاتھ بادشاہوں، افسروں اور لیڈروں کے گلے میں پھول پہنایا کرتے تھے وہی ہاتھ ان کی موت کا سبب ثابت ہوئے۔ یہاں اسی عقیدے کی ترجمانی کی گئی ہے۔ الٰہی ! توہی رات کو دن میں اور دن کی روشنی کو رات کی تاریکیوں میں گم کرتا ہے۔ تو مردہ سے زندہ پیدا کرتا اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ہماری روزی ہے تو جسے چاہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے۔ دعا کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد دن کا اجالا ہوتا ہے اسی طرح مصائب اور مشکلات کے بعد آسانیاں ہوا کرتی ہیں۔ جس طرح دن کی روشنی کو رات کی تاریکیاں آلیتی ہیں ایسے ہی تندرستی کے بعد بیماری، دولت کے بعد غربت اور کامیابی کے بعد ناکامی آدمی کا مقدر بن جاتی ہے۔ گویا کہ جس طرح زندگی دن رات سے عبارت ہے اسی طرح غمی و خوشی اور بیماری و تندرستی آپس میں جڑے ہوئے اور زندگی کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بے حساب رزق دینے کا معنیٰ یہ ہے کہ جب وہ دینے پر آتا ہے تو لینے والے کو بھی اندازہ نہیں رہتا۔ یہ اس کے بے حساب رزق دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ مالداروں نے اپنا حساب و کتاب رکھنے کے لیے کئی کئی کیشیئر اور کلرک رکھے ہوتے ہیں۔ اب تو کیش گننے کے لیے کمپیوٹر اور مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود بھی مال داروں کو اپنی جائیداد اور سرمایہ کا اندازہ نہیں ہوتا اس میں سرمایہ دار کی محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رزّاقی اور اس کی مشیت کا دخل ہوتا ہے جس کی حکمت وہی جانتا ہے۔ مسائل : 1۔ اقتدار و زوال اور عزّت و ذلّت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 2۔ ہر قسم کی خیر اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرنے والا ہے۔ 4۔ وہ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا اور بے حساب رزق دینے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کے اختیارات : 1۔ اللہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ (آل عمران :27) 2۔ اللہ جسے چاہتا ہے معزز اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران :26) 3۔ اللہ مردے کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ (الاحقاف :33) 4۔ اللہ سب کو مار کر دوسری مخلوق پیدا کرسکتا ہے۔ (النساء :133)