وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ
میں نے (یہ بھی) دیکھا کہ وہ خود اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال [٢٥] کو آراستہ کرکے انھیں راہ (حق) سے روک دیا ہے، لہٰذا وہ راہ (حق) نہیں پارہے۔
فہم القرآن: (آیت 24سے26) ربط کلام : ہد ہد کی رپورٹ کا مذہبی حصہ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے ہد ہد نے اپنے چشم دید مشاہدات میں یہ بات بھی عرض کی کہ میں نے ملک سبا کی حکمران اور اس کی قوم کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور یہ کام شیطان نے ان کے لیے خوبصورت بنا دیا ہے۔ ملکہ سبا : شیطان نے نہ صرف شرک کو ان کے لیے خوبصورت بنا کے پیش کیا ہے بلکہ اس نے انھیں صراط مستقیم سے روک رکھا ہے جس بنا پر وہ صراط مستقیم سمجھنے اور اس پر گامزن ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ بات فہم القرآن میں کئی مرتبہ عرض ہوچکی ہے کہ شیطان شرک اور برے اعمال کو اس طرح خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے کہ لوگ شرک اور دیگر جرائم کو گناہ سمجھنے کی بجائے اپنی تہذیب کا حصہ، معاشرتی روایات اور نیکی سمجھتے ہیں۔ جس بناء پر انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم نیکی کی بجائے گناہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرک اور دیگر گناہوں کو چھوڑناتو درکنار ایسے لوگ ان کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ یہ کسی فرد یا قوم کی گمراہی کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ حق قبول کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھتی جائے۔ اور اسے مذہب اور ثقافت کے نام پر کرتی رہے۔ ہد ہد کی رپورٹ اور قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک ایسا غلیظ عمل ہے جس سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ہدہد کے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں عقیدہ توحید سمودیا ہے اسی طرح ہی جانوروں کی فطرت میں عقیدہ توحید کا شعور رکھا ہے۔ جس بناء پر ہد ہد نے شرک سے نفرت کرتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں یہ عرض کی کہ سبا کی ملکہ اور اس کی قوم کتنی ناعاقبت اندیش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو زمینوں آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ اس آیت اور قرآن مجید کے دیگر مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ پرندے اور دیگر مخلوق بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور انھیں پوری طرح اپنے معبود حقیقی کی الوہیت اور اس کی عبادت کرنے کا شعور بخشتا گیا ہے۔ مشرک ” اللہ“ کے سوا دوسروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ مومنوں کو حکم ہے کہ جب ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ﴿ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم﴾ کے الفاظ تک پہنچیں تو وہ اللہ کے حضور سجدہ کریں۔ [ حٰم السجدۃ:37] ” رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ سورج چاند کو سجدہ نہ کر وبلکہ اس ذات کبریاء کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر واقعتا تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔“ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺلم) فَقُلْتُ إِنّی أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔“ ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یاکسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (ﷺ) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ :34] خب کی تعریف : ” پوشیدہ چیزوں کو آسمان و زمین سے نکالنا مثلاً پانی کو آسمان سے نباتات کو زمین سے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ 2۔ غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ 4۔ اللہ ہی معبودِ حق ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن : شیطان کن لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : 1۔ شیطان نے اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام :137) 2۔ قوم عاد و ثمود کے اعمالِ بد کو شیطان نے مزّین کردیا۔ (العنکبوت :38) 3۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا ہے۔ (الانعام :109) 4۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام :43) 5۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل :24)