وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
نیز ہم نے داؤد اور سلیمان [١٤] کو علم [١٥] عطا کیا وہ دونوں کہنے لگے ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔
فہم القرآن: (آیت 15سے 16) ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور انھوں نے اپنی نبوت اور اقتدار کے بارے میں لوگوں کو ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو یہ پہلا خطاب تھا۔ جس میں انھوں نے اپنی نبوت، اقتدار اور اختیار کے بارے میں عوام کو آگاہ فرماتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں سے لے کر چیونٹیوں تک کی زبان اور عادات کا علم عنایت کیا تھا۔ یہ علم ان کے والد گرامی حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حاصل نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے خطاب میں اسے خاص طور پر ذکر کیا۔ جہاں تک ورا ثت کا تعلق ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مسند اقتدار اور ان کے علم اور روایات کے وارث ہوئے۔ لیکن نبوت ایسا منصب ہے جو وراثت اور محنت سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب۔ جسے چاہتا ہے اپنا رسول منتخب کرتا ہے۔ اب سلسلہ نبوت کو نبی اکرم (ﷺ) کی ذات پر ختم کردیا ہے۔ لہٰذا قیامت تک کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔ جہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا وارث بننا ہے وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ذاتی مال کے وارث نہ تھے کیونکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی وفات کے وقت کسی قسم کی جائیداد اور مال نہیں چھوڑتے۔ یہ انبیاء (علیہ السلام) کی خصوصیت ہے لیکن کسی امتّی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی پوری کی پوری جائیداد فی سبیل اللہ وقف کر دے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ کی مسند اقتدار پر بٹھائے گئے تھے۔ جس بنا پر فرمایا گیا کہ وہ اپنے باپ کے وارث بنے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہت بری چیز نہیں بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کی جائے کیونکہ اسلام میں حکومت کرنے کا ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں نظام حکومت شریعت کے مطابق چلایا اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے جس شخص کو دنیا میں حکمرانی اور دین مل جائے اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہوتا ہے۔ مسائل : 1۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ کے اقتدار اور علم کے وارث بنے۔ 2۔ اقتدار اور نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے جس پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : علم والوں کے فضائل : 1۔ جہاد کے ساتھ ساتھ دین کا فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ (التوبۃ:122) 2۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر :9) 3۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر :28) 4۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:11) 5۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 6۔ جو مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں عالم لوگ ہی ان کو سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت :43) 7۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خود علم عطا فرمایا۔ ( البقرۃ:31) 8۔ نبی اکرم (ﷺ) پر پہلی وحی علم کے بارے میں نازل ہوئی۔ ( العلق : 1تا5) 9۔ نبی (ﷺ) اپنی امت کو قرآن، حکمت اور آداب سکھلانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ ( الجمعۃ:2)