فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
پھر جب ہمارے ایسے بصیرت افروز معجزے ان کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صاف جادو ہے۔
فہم القرآن: (آیت13سے 14) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے پاس جانا۔ فرعون اور اس کے حواریوں کا ردِّ عمل۔ سورۃ طٰہٰ میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزات دے کر فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں دو نصیحتیں فرمائیں۔ اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ جاؤ۔ لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا میرے ذکر سے غافل نہ ہونا اور جب فرعون سے گفتگو کرو تو اس میں سختی کی بجائے نرمی ہونی چاہے۔ (طٰہٰ: 42تا44) جب موسیٰ (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کے پاس پہنچے تو انھوں نے دلائل سننے اور عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ ان کے دل مان چکے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے زیادتی اور تکبّر کارویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں انھیں سمندر میں ڈوبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ فساد کرنے والوں کا کس قدر بدترین انجام ہوا۔ ایمان کے لیے تین شرائط ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو تو وہ ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ تصدیق بالقلب، اقرار باللّسان اور عمل بالجوارح۔ مسائل : 1۔ عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا۔ 2۔ فرعون ور اس کے ساتھی اپنے دلوں میں موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی تسلیم کرچکے تھے۔ تسلیم کرلینے کے باوجود انھوں نے تکبر اور ظلم کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے۔