إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ
اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے ان کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے۔ لہٰذا وہ اندھے [٤] بنے پھرتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 4سے5) ربط کلام : یقین اور ایمان سے محروم لوگوں کی دنیا میں سزا اور آخرت میں انتہا درجہ کا نقصان۔ جو لوگ ایمان وایقان کی دولت سے محروم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کے حوالہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے گناہوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔ انسان جب گمراہی کے آخری درجہ میں پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے تہذیب و تمدن، معاشرتی روایات، فیشن اور ترقی کا زینہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل پریشانیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ دل کے سکون کے لیے کبھی نشہ کرتا ہے اور کبھی مزید عیاشی کا سامان ڈھونڈتا ہے۔ لیکن دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہونے کی بجائے مزید پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں بے چینی اور بے سکونی کی سزا ہے اور آخرت میں انھیں بدترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ان کے لیے ایسا نقصان ہوگا جس کا وہ دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کتاب مبین میں شک کرنے والے، نماز کے تارک، زکوٰۃ کے منکر اور آخرت پر یقین نہ رکھنے والے لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ ان کے لیے خوبصورت بنا دیتا ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں کئی مرتبہ یوں بیان کی گئی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کے اعمال شیطان خوبصورت بنا دیتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر چل کر جن رسومات، تہذیب و تمدّن اور اعمال کو یہ لوگ اپنے لیے مفید اور باعث عزت سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے اعمال کے حوالہ کردیتا ہے۔ یہ دنیا میں پریشان رہیں گے اور آخرت میں بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ [ الحج :11] ” اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوجاتا ہے اگر مصیبت آگئی تو الٹا پھر جاتا ہے اس کی دنیا بھی خراب ہوگئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے کھلا نقصان۔“ [ یونس :7] ” بے شک جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر خوش ہوئے اور اس پر مطمئن ہوگئے وہ ہماری آیات سے غافل ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان اور قیامت کے منکروں کے اعمال خوبصورت بناد یے جاتے ہیں۔ 2۔۔ جو لوگ برے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں ان کے لیے دنیا میں پریشانی اور آخرت میں بدترین عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اے پیغمبر کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں جو اپنے اعمال میں نقصان پا نے والے ہیں۔ ( الکہف :103) 2۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ :121) 3۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران :85) 4۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ:19) 5۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر :65) 6۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل :109) 7۔ زمین میں فساد کرنے والے لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ :27) 8۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ:69) 9۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنایا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء :119) 10۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام :31) 11۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (حضرت آدم (علیہ السلام) کی دعا۔ (الاعراف :23)