وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ [١٣٤] ہی کرتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 224 سے 226) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) پر کفار کا تیسرا الزام، اور اس کا جواب : سورۃ الشعراء کا اختتام کفار کے الزامات اور ان کے جوابات پر ہوتا ہے۔ اہل مکہ بڑے تکرار اور صرار کے ساتھ یہ الزام لگاتے کہ آپ شاعر ہیں یہ الزام لگانے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو قرآن مجید کے الفاظ، آیات کا اختتامی انداز جس میں بعض آیات کا ردیف قافیہ اس طرح بنتا ہے جس میں خود بخود ایک دھن پیدا ہوجاتی ہے اور پھر پورے قرآن میں غضب کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ جس سے کوئی بھی آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کبھی وہ آپ کو شاعر قرار دیتے اور کبھی جادوگر کہتے تھے۔ آپ کو شاعر قرار دینے کی دوسری وجہ یہ تھی کیونکہ قرآن مجید میں انتہا درجہ بلاغت اور تخیل کی بلندی پائی جاتی ہے۔ جس وجہ سے اس پر شاعرانہ کلام کا الزام لگانا آسان تھا۔ اس لیے مکہ کے لوگ آپ (ﷺ) کو شاعر کہتے تھے۔ کیونکہ شعراء کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ باتونی ہوتے ہیں ان کے کام اور کلام میں حقیقت بہت کم ہوا کرتی ہے، ان کی اکثر یت گمراہ ہوتی ہے اور وہ ہر اچھا برا کلام پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ بھلی بات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کرنے کے باوجود خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ شعراء اور ان کے پیچھے لگنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر شعراء ہر وادی میں سرگراں پھرتے ہیں جبکہ رسول کریم (ﷺ) قرآن مجید کے ہر حکم پر عمل کرنے والے اور لوگوں کے سامنے اکمل اور بہترین نمونہ تھے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِ نِ الخُدْرِیِّ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ نَسِیْرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) بِالعَرْجِ اِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ یُنْشِدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) خُذُو الشَّیْطَانَ اَوْاَمْسِکُوا الشَّیْطَانَ، لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا خَیْرٌ لَہٗ مِنْ اَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا) [ رواہ مسلم : باب، الشعر] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول معظم (ﷺ) کے ساتھ عرج کے علا قے میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر نے آکر شعر کہنے شروع کردیے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا‘ اس شیطان کو پکڑو یا فرمایا کہ شیطان کو دور کرو۔ کہ اگر کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھراہو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ اشعار سے بھرا ہوا ہو۔“ اشعار کے نفع ونقصان کے بارے میں سورۃ یٰسین کی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ متحدہ ہندوستان کے دور میں مولانا الطاف حسین حالی ان چند شعراء میں شامل ہیں جن کا اس زمانہ میں طوطی بولتا تھا وہ اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں۔ شاعری کا ماحول عام طور پر جہالت کے دور میں زیادہ پنپتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونان کے مشہور فلسفی اور مفکر ارسطو کا حوالہ دیا کہ جب اس نے پہلی مرتبہ یونان کا دستور مرتب کیا تو ہر طبقہ کی اس نے ضرورت محسوس کی لیکن شاعروں کے طبقہ کو اس لیے در غور اعتنانہ سمجھا کیونکہ بقول ان کے شاعر لوگ عام طور پر باتیں جوڑنے اور بنانے کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ارسطو کے قول کے بارے میں نہ معلوم ہر دور کے دانشوروں کی کیا رائے ہوگی تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ شعر وشاعری کے ماحول میں علم اور عقل کی بات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ میں نے زندگی میں ان گنت عوامی اجتماعات میں شرکت کی اور سنے ہیں۔ جس اجتماع میں کوئی خطیب شعر یا ترنم کے ساتھ بات نہیں کرتا بیشک وہ کتنا ہی اچھا خطیب اور عالم کیوں نہ ہو لوگ اس کی بات سننے کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ جس معاشرے اور جماعت میں ایسا ماحول پیدا ہوجائے وہاں علم اور علماء کی قدر اٹھ جاتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعر و شاعری کے فوائد کم اور وقتی اس کے نقصانات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ مسائل : 1۔ شعراء کے کلام میں اچھی بری ہر قسم کی بات پائی جاتی ہے۔ 2۔ اکثر شعراء اچھی باتیں کہنے کے باوجود خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ 3۔ شعراء کے پیچھے لگنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) پر شاعری کا الزام اور اس کی تردید : 1۔ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور :30) 2۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصٰفٰت :36) 3۔ شعراء کے پیچھے تو بھٹکے ہوئے لوگ چلتے ہیں۔ ( الشعراء :224) 4۔ ہم نے آپ کو شعر شاعری نہیں سیکھلائی اور نہ ہی یہ آپ کے لیے زیبا تھا۔ (یٰسٓ:69)