كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ
اصحاب الایکہ [١٠٤] (اصحاب مدین) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا
فہم القرآن : (آیت 176 سے184) ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر، قوم شعیب کفرو شرک میں ملّوث ہونے کے ساتھ لین دین میں بدترین خیانت کرتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جس بنا پر ان کی قوم کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء :176) مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور ینبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی اس کے عین چورا ہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بنا پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا۔ اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت اور کھنڈرات کافی حد تک برقرار تھے۔ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن ان کے آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ ” اللہ“ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کس کس انداز میں کتنا عرصہ سمجھایا ہوگا۔ لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔ حتی کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : ٨٧۔ تم پر اے شعیب (علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء :185) اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت :91) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو۔ تم اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : 90تا95) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ (الشعراء : 185تا187) (قَال النَّبِیُّ (ﷺ) اکْتَالُوا حَتَّی تَسْتَوْفُوا) [ رواہ البخاری : باب الکیل علی البائع والمعطی] ” نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جب ناپ تول کرو تو اسے پورا کرو۔“ ماپ تول میں کمی کرنے کی سزا : (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) [ السلسلۃ الصحیحۃ:107] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِیْ النَّارِ) [ اخرجہ ابن حبان : ھذاحدیث حسن ] ” عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں، مکر و فریب کرنے اور دھوکہ دینے والا آگ میں جائے گا۔“ مسائل : 1۔ قوم شعیب ناپ تول میں کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ 2۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو ماپ تول پورا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ 3۔ انسان کو ہر حال میں خالقِ کائنات سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 4۔ پہلوں اور بعد والوں کو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : 1۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف :85) 2۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام :52) 3۔ ماپ، تول پورا رکھنے کا حکم۔ (الاسراء :35) 4۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود :84) 5۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء :181) 6۔ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ ( المطففین :1)