سورة الشعراء - آیت 160

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لوط کی قوم نے (بھی) رسولوں [٩٩] کو جھٹلایا تھا۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 160 سے 167) ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کا اپنی قوم کو سمجھنا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھی ان کی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نسل انسانی کے ناطے سے تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ انھوں نے انہی الفاظ اور انداز سے اپنی دعوت کا آغاز کیا جس طرح ان کے پیش رو انبیاء کرام (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انھوں نے بار بار قوم کو اپنے رب سے ڈرایا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری طرف رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ میں رب کے پیغام تم تک پوری دیانت و امانت کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابعداری کرو۔ کفر و شرک اور بدکاری کو چھوڑ دو، یاد رکھو! میں فریضہ نبوت کی انجام دہی اور تمھاری خدمت کرنے پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) : حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ حضرت لوط نے عقیدہ توحید کی دعوت دینے کے ساتھ اس برائی کو ختم کرنے پر خصوصی توجہ فرمائی۔ آپ نے اپنی قوم کو بار بار فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اپنی بیویوں سے صحبت کرنے کی بجائے لڑکوں کے ساتھ بدمعاشی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری بیویوں کو ازدواجی تعلقات کے لیے پیدا فرمایا ہے لیکن تم ان کی بجائے لونڈے بازی اور ہم جنسی کا ارتکاب کرتے ہو تم اخلاقی حدوں کو توڑ رہے ہو۔ تمھیں اللہ سے ڈر کر اس سے باز آنا چاہیے۔ قوم نے کہا کہ اے لوط ! اگر تو ہمیں اس کام سے روکنے سے باز نہ آیا تو ہم تمھیں اپنے شہر سے نکال باہر کریں گے۔ مسائل : 1۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حسب و نسب کے لحاظ سے اپنی قوم کے بھائی تھے۔ 2۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور فرمایا کہ کفر و شرک اور بدکاری چھوڑ کر میری تابعداری کرو۔ 3۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ نبوت کا کام کرتے تھے۔ 4۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم لونڈے بازی کا غیر فطری عمل کرتے تھے۔ 5۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا۔ 6۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نبوت کے کام اور لوگوں کی خدمت کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔