قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
وہ کہنے لگے : ''کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ کمینے لوگوں [٧٥] نے تمہاری پیروی کی ہے۔
فہم القرآن : (آیت 111 سے 115) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے اور ان کی امانت کا اعتراف کرنے کے باوجود قوم کا جواب۔ قوم کا جواب یہ تھا کہ اے نوح کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں ؟ جبکہ تجھ پر ایمان لانے والے معاشی اعتبار سے غریب سماجی حوالے سے گھٹیا لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواباً ارشاد فرمایا مجھے کیا معلوم کہ کون کیا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کا حساب میرے رب کے ذمہ ہے کاش تم شعور سے کام لو۔ میں ان کے پیشہ کی وجہ سے انھیں اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتا کیونکہ میرے ذمہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ دین کی تاریخ یہ ہے کہ اس کے ماننے والے۔ ابتداً غریب لوگ ہوا کرتے ہیں جنہیں معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ حقیر سمجھتے ہیں اور بڑے لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا، اٹھنا اپنی توہین جانتے ہیں۔ اس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے لوگوں نے یہ کہہ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کریں جو ہم میں نیچ ہمارے نوکر چاکر ہیں۔ حقیقتاً وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اطاعت گزار بننے میں اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) ظاہری جمال و کمال کے اعتبار سے ان سے اعلیٰ تھے اس لیے انھوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے ساتھی کمتر لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا علم کہ پیشے کے اعتبار سے کون کیا کرتا ہے۔ مالی لحاظ سے کوئی کیا حیثیت رکھتا ہے میرا کام لوگوں کا پیشہ بدلنا نہیں میرا فرض تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو برے کاموں سے بچنے کا حکم دوں اور برے انجام سے لوگوں کو ڈراؤں۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا حساب ان کے رب کے ذمہ ہے۔ کاش تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان پیشے اور مال کے حوالے سے معزز نہیں ہوتا معزز وہ ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بہتر ہے۔ ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ﴾ ” اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ایک دوسرے کی پہچان کے لیے تمہارے قبلے اور برادریاں بنائیں۔ تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا وہ ہے جو متقی ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے۔“ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (ﷺ) ] ” اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ ! یقیناً تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں۔“ مسائل :1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہہ کر ان کی نبوت کا انکار کیا کہ تجھ پر ایمان لانے والے لوگ سماجی اعتبار سے گھٹیا لوگ ہیں۔ 2۔ ا لداعی کو غربت کی بنا پر نیک لوگوں کو اپنے آپ سے دور نہیں کرنا چاہیے اس کا کام لوگوں کو برے اعمال اور اس کے انجام سے ڈرانا ہے۔ تفسیر بالقرآن :صحیح عقیدہ اور صالح اعمال کرنے والوں کا مرتبہ و مقام : 1۔ ایماندار صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ (الجاثیۃ :30) 2۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج :50) 3۔ موت کے بعد نیک لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (آل عمران :193) 4۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء :86) 5۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ:121) 6۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس :26)