رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
(اس کے بعد ابراہیم نے دعا کی کہ) پروردگار! مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے صالح لوگوں میں شامل [٥٩] کردے۔
فہم القرآن : (آیت 83 سے 87) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور فریادیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں بہت سی دعائیں کی ہیں۔ جن میں انسان کی بڑی بڑی حاجات کا ذکر ہے انہیں درج ذیل آیات میں ملاحظہ فرمائیں (البقرۃ: 126، 127، 128، 129) (سورۃ ابراہیم : 37تا41) (الصافات :101)۔ یہاں ان کی چھ دعاؤں کا تذکرہ ہے جن میں ایک دعا کے سوا باقی تمام دعائیں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوئیں۔ 1۔ میرے رب مجھے حکمت اور قوت فیصلہ عنایت فرما۔ 2۔ میرے رب مجھے آخرت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب فرما۔ 3۔ میرے رب میرے بعد میرا ذکر خیر جاری رکھنا۔ 4۔ میرے رب مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنانا۔ 5۔ میرے رب میرا باپ گمراہ ہوچکا ہے اسے معاف فرما۔ 6۔ میرے رب مجھے قیامت کے دن رسوائی سے بچانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا انجام : اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کو نہ صرف معاف نہیں کیا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آئندہ دعا کرنے سے روک دیا اور ان کے بعد ہمیشہ کے لیے اصول جاری فرمایا۔ ﴿مَا کَان للنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔ وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ﴾ [ التوبہ : 113۔114] ” نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں جائز نہیں اس کے بعد کہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ رشتہ دار ہوں، بلاشبہ وہ جہنمی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش طلب کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ بے شک ابراہیم بہت آہ زاری کرنے والے اور حوصلہ مند تھے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآئِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو ان کا باپ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ فرمایا۔ میرے باپ کے معاملہ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجھو بن چکا ہوگا۔ جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منفرد اعزاز : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری دعا یہ تھی کہ میرے رب میرے بعد بھی میرا ذکر خیر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں پوری دنیا کا امام بنایا۔ ( البقرۃ:124) اور لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام پیدا کیا جس وجہ سے دنیا میں ہر مذہب کے لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کی جو دعائیں قبول نہ ہوئیں : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے بارے میں دعاقبول نہیں ہوئی۔ ( ہود :46) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ کے بارے میں دعامستجاب نہ ہوئی۔ ( التوبہ :114) 3۔ نبی اکرم (ﷺ) کی اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں دعاشرف قبولیت نہ پا سکی۔ ( القصص :26) 4۔ عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں آپ (ﷺ) کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ( التوبہ :80)