فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ
چنانچہ (ایک دن) صبح کے وقت فرعونی ان کے تعاقب میں چل پڑے۔
فہم القرآن : (آیت 60 سے 68) ربط کلام : فرعون اور اس کے لشکروں کا بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا۔ فرعون نے اپنے لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے صبح کے وقت بنی اسرائیل کا تعاقب شروع کیا اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے بنی اسرائیل کو پالیا۔ بنی اسرائیل نے فرعون اور اس کے لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہم تو گھیرے گئے۔ سامنے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور پیچھے سے فرعون نے آلیا ہے۔ جائیں تو کدھر جائیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے اعتماد کے ساتھ فرمایا گھبراؤ نہیں فرعون ہمارے قریب نہیں پھڑک سکتا۔ یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنا خطاب ختم کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اپنا عصا سمندر پر ماریے۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پانی پر مارا تو سمندر کا پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح تھم گیا۔ اس طرح سمندر میں بارہ راستے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی۔ فرعون نے یہ صورتحال دیکھی تو اس نے لشکر کو سمندر میں آگے بڑھنے کا حکم دیا لیکن جونہی اس کے لشکر کا آخری آدمی سمندر میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسرے مقام پر یہ وضاحت موجود ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھی سمندر عبور کرچکے اور فرعون پورے لشکر کے ساتھ سمندر میں داخل ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پانی پر مارا۔ تھمی ہوئی موجیں آپس میں مل گئیں اور آل فرعون ڈبکیاں لیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ (القصص :63) فرعون کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس نے ڈبکیاں لیتے ہوئے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا۔ ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب غرق ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا۔ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اسے جواب ملا کہ کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔“ (یونس : 90۔91) فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں قدرت کی عظیم نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور نہایت ہی مہربان ہے۔ نشانی اور العزیز کا لفظ استعمال فرما کر اہل مکہ اور ظالموں کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم فرعون اور اس کے لشکروں سے طاقتور نہیں یہ تو ” اللہ“ کی حکمت ہے کہ وقت معین تک ظالموں کو مہلت دیے جاتا ہے۔ جب گرفت کرنے پر آئے تو دنیا کے اسباب وو سائل اور لاؤ لشکر کسی ظالم کو پناہ نہیں دے سکتے۔” الرحیم“ کی صفت کے حوالے سے بے بسوں اور مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ نہایت ہی مشفق اور مہربان ہے۔ وہ دنیا میں تمھارا بدلہ لے گا اور آخرت میں تمھیں اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ چنانچہ ہجرت مکہ کا واقعہ یاد کریں کہ جب مکہ والے غار ثور کے دہانے پر پہنچ گئے اور ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں دیکھا تو گھبرا کر عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول کفار تو غار کے منہ پر پہنچ چکے ہیں اس موقعہ پر آپ نے جو فرمایا اس کا تذکرہ قرآن اس طرح کرتا ہے۔ ﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَافَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ [ التوبہ :40] ” اگر تم اس کی مدد نہ کرو توبلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی جب اسے کفار نے نکال دیا، جب وہ دو میں دوسراتھا، جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ نے اس پر اپنی سکینت اتاردی اور انہیں ایسے لشکروں کے ساتھ مدد فراہم کی جو تم نے نہیں دیکھے۔ کفار کا منصوبہ ناکام ہوا اور اللہ کا فیصلہ غالب رہا۔ اللہ سب پر غالب اور خوب حکمت والاہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے پیغمبر ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ 2۔ اللہ ہی انسان کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 4۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش میں عبرت کے اسباق ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب اور اپنے بندوں کی مدد کرنے والا، نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن : فرعون اور ان کے ساتھیوں کے مظالم : 1۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص :4) 2۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : 129) 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص :6) 4۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر :10) 5۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ (التحریم :11) 6۔ فرعون قوم موسیٰ کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ (البقرۃ:49) 7۔ فرعون مومنوں کو کئی طرح کے اذیّتوں میں مبتلا کرتا تھا۔ (الاعراف :141) 8۔ فرعون نے موحدین کو پاؤں اور ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دی۔ (الاعراف :134) 9۔ فرعون نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کھجور کے تنوں پر پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ (طہٰ:71)