قَالُوا لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ
وہ کہنے لگے : ’’کچھ پروا نہیں! ہمیں اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوناہے‘‘
فہم القرآن: (آیت 50 سے 51) ربط کلام : جادوگردوں کی طرف سے فرعون کی دھمکیوں کا جواب۔ ایمان لانے والے جادوگروں نے فرعون کی دھمکیوں کے جواب میں اعلان کیا کہ تمھاری دھمکیوں اور سزا کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مرنے کے بعد ہم اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں گے۔ ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ کیونکہ ہم اس پر پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایمان لانے والے جادوگروں نے فرعون کو یہ بھی کہا کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے رب اور اس کے دلائل پر تجھے ہرگز ترجیح نہیں دے سکتے۔ لہٰذا ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتا ہے کرلے۔ تیری سزا اس دنیا کی زندگی تک ہے ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے اور جو ہم سے جبراً جادو کروایا گیا ہے ہم اس کی بھی معافی مانگتے ہیں۔ ہمارے لیے ہر حال میں اللہ ہی بہتر ہے جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔ (طٰہٰ: 72۔73) سچے ایمان کی یہی نشانی ہے کہ یہ انسان کو چند لمحوں میں اس کے رب کے اتنا قریب کردیتا ہے کہ انسان نہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ کسی مفاد کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے خوف سے مرعوب ہوتا ہے۔ (عَنْ سُفْیَانَ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الثَّقَفِیِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قُلْ لِّیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلًا لَّا اَسْاَلُ عَنْہُ اَحَدًا بَعْدَکَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ غَیْرَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) [ رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں عرض کیا مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے ’ آپ کے علاوہ‘ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس پر ڈٹ جاؤ۔“ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور اس جنت کی خوشی سنوجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔“ (حٰم السجدۃ:30) ارادی اور غیر ارادی گناہوں کی معافی مانگنا : (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ (رض) عَمَّا کَانَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) یَدْعُو بِہِ اللَّہَ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَل) [ رواہ مسلم : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے اس دعا کے متعلق سوال کیا جو آپ (ﷺ) مانگا کرتے تھے آپ دعا کرتے اے اللہ میں تجھ سے ان لغزشوں کی معافی مانگتا ہوں جو میں نے کی ہیں اور ان سے بھی جو میں نے نہیں کیں۔“ ” اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہماری گرفت نہ فرما۔“ [ البقرۃ:286] مسائل: 1۔ سچے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دھمکیوں اور ہر قسم کی سزا کی پرواہ نہ کرے۔ 2۔ انسان نے بالآخر اپنے رب کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ 3۔ آدمی کو اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 4۔ کسی کے مجبور کرنے پر بھی اگر گناہ کیا ہو تو اس کی معافی مانگنا بھی لازم ہے۔ 5۔ حقیقت آشکارہ ہونے پر آدمی کو اسے تسلیم کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: مومن ہر حال میں اپنے رب سے معافی طلب کرتے ہیں : 1۔ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو، اسی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ تم پر بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ھود :52) 2۔ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں کو عذاب نہیں دیتا۔ (الانفال :33) 3۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل :20) 4۔ اللہ سے معافی طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ بے شک میرا رب نرمی کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ھود :90) 5۔ اللہ سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (نوح :10)