يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ
’’وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال [٢٧] دے۔ اب تم کیا مشورہ [٢٨] دیتے ہو‘‘
فہم القرآن: ( آیت 35 سے 42) ربط کلام : فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگروں کے ساتھ مقابلہ کا چیلنج دیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سیرت اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ جب بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے انھیں پاگل اور جادو گر کہا گیا تھا۔ یہی الزام موسیٰ (علیہ السلام) پر لگے کہ یہ بہت بڑا جادوگر ہے۔ حالانکہ فرعون جانتا تھا کہ جادوگر اس سیرت کے حامل لوگ نہیں ہوتے۔ جس سیرت سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سرفراز فرمایا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر فرعون نے سیاسی حربہ استعمال کرتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ یہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ بتاؤ تمھارا کیا فیصلہ ہے ؟ وزیرں، مشیروں نے بیک زباں ہو کر کہا کہ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجیے اور آپ اہل کاروں کو بھیجیں کہ وہ ملک بھر سے آپ کے پاس بڑے بڑے جادوگروں کو حاضر کریں ہاں مقابلے کے لیے ایک خاص دن متعین ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد پوری ہوئی۔ اس لیے فوراً مان گئے اور فرمایا کہ یہ دن عام نہیں بلکہ قومی تہوار کا دن ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی فرعون نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو وعدہ خلافی نہیں کرنا چاہیے۔ (طٰہٰ: 58، 59) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی دعوت پیش کرنے کرلیے عظیم موقعہ ہاتھ آرہا تھا، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) تو اتنا بڑا اجتماع منعقد نہیں کرسکتے تھے۔ جب لوگ متعین دن میں صبح کے وقت ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے تو فرعون نے اس بات کی تسلّی کی۔ کیا مطلوبہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے ہیں ؟ اعلیٰ حکام نے رپورٹ پیش کی کہ ہاں، لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوچکے ہیں۔ اس اطمینان کے بعد فرعون اپنے وزیروں، مشیروں کے ساتھ یہ کہہ کر اجتماع کی طرف نکلا کہ آؤ اگر جادوگر غالب آتے ہیں تو ہم ان کی اتباع کریں۔ جب جادوگر اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون سے مطالبہ کیا اگر ہم غالب آجائیں تو ہمارا کیا معاوضہ ہوگا ؟ فرعون نے انھیں اطمینان دلایا کہ نقد انعام کے ساتھ میں تمھیں اپنا مقرب بناؤں گا۔ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے قریب عام طور پر مفاد پرست اور محض سرکاری درباری لوگ ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد مالی مفاد اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ اس وقت تک ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے جب تک انھیں منصب اور مراعات ملنے کا یقین نہ ہوجائے۔ یہی جادوگروں کا مطلوب اور مقصود تھا۔ جہاں تک فرعون کے اس جملے کا تعلق ہے کہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کی اتباع کریں گے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اس نے بھری مجلس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم غالب آگئے تو ہم آپ کی اتّباع کریں گے لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) غالب آئے تو فرعون اور اس کے ساتھی اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکے۔