قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ
فرعون کہنے لگا : یہ رب العالمین [١٦] کیا ہوتا ہے ؟
فہم القرآن: (آیت 23 سے 26) ربط کلام : فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مکالمہ۔ فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان جتلانے اور ان کی قوم کو غلام بنانے کے معاملے میں لاجواب ہوا۔ تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کیا کہ تم کس رب العالمین کی بات کرتے ہو۔ جس کا معنٰی تھا کہ میرے سوا کون رب ہوسکتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تفصیلی جواب دینے کی بجائے سادہ اور جامع جواب دیا کہ میں اس رب کا رسول ہوں۔ جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اگر تم اس پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو۔ یاد رہے کہ رب کا معنی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ ہے۔ فرعون نے اپنا سکہ جمانے اور اپنے وزیروں، مشیروں پر اثر ڈالنے کے لیے کہا جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کہہ رہا ہے اسے سن رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ فرعون اپنے وزیروں اور مشیروں سے اپنی ہاں میں ہاں ملوانا چاہتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وزیروں، مشیروں کو بولنے کا موقعہ دیے بغیر فرمایا کہ ہاں میں اس رب کی بات کرتا ہوں جس نے تمھیں اور تمھارے آباؤ اجداد کو پیدا کیا۔ ہوسکتا ہے فرعون یہ مغالطہ دینے میں کامیاب ہوجاتا کہ میں بھی اپنے ملک میں رہنے والوں کی ضروریات پوری کررہا ہوں اس لیے مجھے رب کہلوانے کا حق پہنچتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دلیل دے کر ثابت کیا میری مراد وہ رب ہے کہ جس نے تمھیں اور تمھارے آباؤ اجداد کو پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کچھ پیدا نہیں کرسکتا۔ اس لیے فرعون سے اس سوال کا جواب بھی نہ بن سکا۔ جس سے اس کی خفت میں مزید اضافہ ہوا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا رب ہے۔ 2۔ سرکش قسم کے لوگ دلائل کو نہیں مانتے۔