سم
ط۔ س۔ م
فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورۃ: سورۃ الفرقان کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اے پیغمبر (ﷺ) انہیں واضح کردیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرے گا، بہت جلد اپنا انجام پا لے گا۔ اگر انہیں یقین نہیں آتا تو انہیں تکذیب کرنے والی اقوام کے واقعات سنائیں کہ ان کا کیا انجام ہوا، جس میں سر فہرست فرعون کی قوم ہے۔ ﴿طٓسٓمٰ﴾۔ حروف مقطعات ہیں۔ جن کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سورۃ کا آغاز کتاب مبین کے تعارف سے شرو ع ہوا ہے۔ ﴿ اَلْمُبِیْنِ﴾ کا معنٰی ہے ایسی کتاب جس کے ارشادات، احکام، ٹھوس دلائل اور حقائق پر مبنی ہیں۔ جن میں کسی قسم کا تضاد اور الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ یہ کتاب اپنا مدّعا اس انداز اور دلنشیں پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ کہ جس سے حق وباطل، کھرے اور کھوٹے، جائز اور ناجائز میں کھلا فرق دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کی نہ پہلے کوئی نظیر موجود ہے اور نہ ہی قیامت تک اس کی کوئی مثال پیش کرسکتا ہے۔ جس طرح یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ہی جس ذات گرامی پر یہ نازل کی گئی وہ بھی کائنات میں اپنی نظیر اور مثال نہیں رکھتے۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے اس کتاب مبین کو جس پر خلوص انداز اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا وہ آپ ہی کا کام تھا۔ آپ کے خلوص اور انتھک جدوجہد کے باوجود کفار نے ناصرف اس کا انکار کیا بلکہ وہ آپ پر مختلف الزام لگاتے اور ظلم ڈھاتے رہے۔ اس کے باوجود آپ کی خواہش تھی کہ یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ بسا اوقات یہ آرزو آپ کے لیے اس قدر گراں صورت اختیار کر جاتی کہ قریب تھا کہ آپ کو جسمانی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اس کیفیت کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا اور آپ کابوجھ ہلکا نہیں فرمایا ؟ قریب تھا کہ اس بوجھ سے آپ کی کمر ٹوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو بلند فرمایا یقین کرو کہ تنگی کے بعد آسانی آیا کرتی ہے۔ (الانشرح : 1تا6) سورۃ طٰہٰ میں آپ (ﷺ) کو یوں تسلّی دی گئی : ” طٰہٰ۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مصیبت میں پڑجائیں۔ یہ تو نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرنے والا ہے۔ یہ کتاب اس ذات کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔“ اس بوجھ کو اتارنے اور غم کو ہلکا کرنے کے لیے اس سورۃ کی ابتداء میں نبی کریم (ﷺ) کو یہ بات سمجھائی گئی کہ کیا یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے تو آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ؟ آپ کا کام بار بار سمجھانا ہے۔ جو اعلیٰ اخلاق اور کمال جانفشانی کے ساتھ آپ سر انجام دے رہے ہیں۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ۔۔ فَقَالَ لِخَدِیجَۃَ وَأَخْبَرَہَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِیتُ عَلَی نَفْسِی فَقَالَتْ خَدِیجَۃُ کَلاَّ وَاللَّہِ مَا یُخْزِیک اللَّہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔۔۔۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور فرمایا، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ انہوں نے تسلی دی کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں، مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید روشن اور ایک واضح کتاب ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کوتسلی اور اطمینان سے نواز ا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) کی محنت کو بے انتہا خراج تحسین سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) لوگوں پر چوکیدار نہیں بنائے گئے : 1۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس :17) 2۔ آپ (ﷺ) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود :12) 3۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد :40) 4۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل :35) 5۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ:48) 6۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو کو توال نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: 21۔22)