وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اور رحمٰن کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری [٨٠] سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام [٨١] کہہ کر (کنارہ کش رہتے ہیں)
فہم القرآن: ربط کلام : شکر گزار لوگ رحمن کے بندے ہوتے ہیں یہاں الرّحمن کے بندوں کی چند صفات کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت سے تین آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم نام ” الرحمن“ کا یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ الرّحمن وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ اس کے بعد چاند اور سورج، رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قدرت کی نشانیوں سے وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اپنے رب کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ شکر گزار ہونے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں اور مہربانیوں کا احساس اور ادراک پیدا کرے۔ جس نے اپنے رب کی مہربانیوں کا شعور اور ادراک پالیا وہ الرّحمن کا بندہ بن جائے گا۔ الرّحمن کے بندوں کے اوصاف میں پہلا اخلاقی وصف یہ ہے کہ ان کی چال ڈھال میں وقار اور عاجزی پائی جاتی ہے۔ ان کی گفتار میں سنجیدگی اور اخلاق نمایاں ہوتا ہے۔ انسان کی چال ڈھال، اس کی طبیعت اور کردار کی ترجمان ہوتی ہے۔ گفتار سے آدمی کی فہم و فراست اور اس کے نظریات کا علم ہوتا ہے، طبیعت میں عاجزی اور کردار میں پاکیزگی ہو تو انسان کی چال ڈھال میں اس کی عاجزی اور حسن کردار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ طبیعت میں غرور اور تکبر ہو تو چال ڈھال متکبرانہ ہوجاتی ہے۔ انسان حسن کردار سے تہی دامن ہوگا تو چال ڈھال میں چھچھوراپن اور آوارگی نظر آئے گی۔ ” عباد الرّحمن“ میں مسلمان مردوں کے ساتھ مسلم خواتین بھی شامل ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی چال ڈھال کا ایک معیار قائم فرمایا ہے۔ حکم ہے کہ اے انسان! زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چل، اکڑ اکڑ کر چلنے سے نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل :37) حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو یوں نصیحت کی تھی : بیٹا ! درمیانہ چال چلو اور اپنی گفتگو میں میانہ روی اختیار کرو۔ سب سے مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ (لقمان :19) درمیانہ چال یہ ہے کہ نہ اس میں مریضانہ اور تکلّفانہ عاجزی کا اظہار ہو اور نہ ہی اس میں فخر و غرور پایا جائے۔ خواتین کے لیے مزید اصول یہ ہے کہ وہ اپنے سنگھار بناؤ کو ایڑیاں مار مار کر ظاہر نہ کریں۔ (الاحزاب :33) مردوں اور عورتوں کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنی نگاہیں ادھر ادھر اٹھانے کی بجائے نیچی رکھا کریں۔ (النور : 30، 31) خواتین کی پسندیدہ چال کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی ہے کہ وہ بڑی حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی اور اس نے حیا دار لہجے میں کہا، میرے باپ آپ کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں جو آپ نے ہماری خدمت کی ہے تاکہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ (القصص :25) جہاں تک انسان کی گفتار اور آواز کا معاملہ ہے اگر وہ امام اور خطیب ہے تو اسے اپنے مقتدی اور سامعین کی تعداد کے مطابق آواز نکالنی چاہیے۔ کوئی استاد ہے تو اسے چاہیے نہ اس قدر دھیمی آواز بات کرئے کہ شاگرد کو سنائی نہ دے اور نہ اتنی بلند آواز سے بولے کہ اس کی آواز میں کراہت محسوس کی جائے۔ نبی کریم (ﷺ) بولنے میں اس قدر احتیاط فرماتے کہ اگر گھر میں دیر سے تشریف لے جاتے اور گھر والے سو رہے ہوں تو ایسے لہجے میں سلام کہتے۔ کہ جاگنے والا سن لیتا اور سوئے ہوئے کی نیند میں خلل واقعہ نہ ہوتا۔ (صحیح الادب المفرد : باب التسلیم علی النائم) خواتین کو ہدایت ہے کہ غیر محرم سے بات کرتے ہوئے نسوانہ آواز میں قدرے بیگانگی کا لہجہ اختیار کریں تاکہ جس کے دل میں بے حیائی کا مرض ہو وہ کسی قسم کی امید قائم نہ کرے۔ (الاحزاب :32) مرد ہو یا عورت جب کسی جاہل کے ساتھ واسطہ پڑے تو اس کے ساتھ الجھنے کی بجائے اچھی بات کہہ کر بات کا رخ بدل دے۔ جاہل کو ترکی بہ ترکی جواب دینے سے آدمی کے اپنے اخلاق میں گراوٹ پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات آپس میں الجھاؤ پیدا ہوجاتا ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لغت کے اعتبار سے ” ھُوْنًا“ کا معنی ” عاجزی اور وقار“ ہے۔ مسائل: 1۔ ” عباد الرّحمن“ کی چال ڈھال میں سنجیدگی اور وقار ہوتا ہے۔ 2۔ ” عباد الرّحمن“ کی گفتگو میں اخلاق ٹپکتا ہے۔ 3۔ عبادالرّحمن جاہلوں سے الجھنے کی بجائے اچھی بات کہتے ہوئے چل دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: عباد الرّحمن کی چال ڈھال کی ایک جھلک : 1۔ عباد الرّحمن عاجزانہ چال چلتے ہیں۔ ( الفرقان :63) 2۔ مومن بیہودہ حرکتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المومنون :3) 3۔ مومن بیہودہ بات سنتے ہیں تو با وقار طریقہ سے گذر جاتے ہیں۔ (الفرقان :72) 4۔ اللہ کے بندے میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان67)