قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاءَ أَن يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
آپ ان سے کہئے : کہ میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔[٧٠]
فہم القرآن: (آیت 57 سے 58) ربط کلام : کفار اور مشرکین کے مقابلہ میں رسول کریم (ﷺ) کو دوباتوں کی تلقین۔ یہ اعلانِ حق آپ (ﷺ) کی زبان سے کروایا گیا کہ آپ اپنی قوم کو دو ٹوک انداز میں فرما دیں کہ میں نبوت کی ذمہ داریوں کے بدلے تم سے کسی قسم کا اجر اور معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ اس میں ایک طرف کفار اور مشرکین کے لیے پیغام ہے کہ سوچو اور غور کرو ! کہ جس شخصیت کا نبوت سے پہلے اس قدر احترام اور مقام تھا کہ ہر کوئی اس کا اعتراف کرتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے مقام اور احترام کو جس مشن پر قربان کیا ہے اسے اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے ؟ اس کے ساتھ نبی کریم (ﷺ) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان سے کسی قسم کے اجر کے طالب نہیں۔ جسے بوجھ سمجھ کر یہ آپ کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ آپ تو ان کی اصلاح اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے مصائب اور مشکلات برداشت کرر ہے ہیں۔ جب سب کچھ آپ اپنے رب کی وجہ سے کر رہے ہیں تو اس رب پر بھروسہ کیجیے جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم و دائم ہے اور قائم ودائم رہے گا بس زندہ اور قائم و دائم رہنے والے رب کی حمد و ستائش کرتے رہیں۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب واقف ہے۔ اس میں بھی آپ کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ یہ خیال نہ فرمایں کہ آپ کا رب آپ کے مخالفوں کے جرائم سے غافل ہے ایسا ہرگز نہیں وہ لوگوں کے جرائم سے پوری طرح آگاہ ہے، لیکن اس نے جبر کرنے کی بجائے لوگوں کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے رب کا راستہ اختیار کریں، اگر نہ چاہیں تو اس کے مخالف چلتے رہیں تاہم انھیں یہ بات ہر لمحہ یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا رب ان کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ ان الفاظ میں مجرموں کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ آپ (ﷺ) کی دعا : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) إِذَا کَرَبَہُ أَمْرٌ قَالَ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیح بالْیَدِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ دعا کرتے اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں۔“ مسائل: 1۔ تمام انبیاء نبوت کا کام بلامعاوضہ کیا کرتے تھے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کو حکم تھا کہ آپ ہر حال میں اپنے رب کی حمد و ستائش کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والا ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ 4۔ ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے رب پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اچھے اور برے راستے پر چلنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) بلامعاوضہ نبوت کا کام اور لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے : 1۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود :29) 2۔ حضرت ہود نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا ء:127) 3۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعراء :145) 4۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا :47) 5۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود :51) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تجھ سے نہ تم سے اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص :86)