وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا
اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا [٦٥] رکھا ہے جن میں سے ایک کا پانی لذیذ و شیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔ پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کردی ہے۔[٦٦]
فہم القرآن: ربط کلام : رسول اکرم (ﷺ) کو کفر کے خلاف جہاد کبیر کرنے کا حکم دینے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ اشارۃً یہ بھی سمجھا دیا کہ جس طرح سمندر کا پانی کڑوا اور میٹھا ہوتا ہے اور اس کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ اسی طرح لوگوں کا معاملہ ہے کچھ نیک ہوتے ہیں اور کچھ برے ہوتے ہیں۔ وہی ذات کبریا ہے جس نے دو سمندروں کو باہم ملا رکھا ہے۔ ایک طرف نہایت میٹھا پانی چل رہا ہے اور اس کے ساتھ، ساتھ نہایت کڑوا پانی بہہ رہا ہے۔ ایک ہی سمندر میں چلنے والے دونوں پانیوں کے درمیان ایک غیرمری پردہ حائل کردیا گیا ہے۔ نہ میٹھا پانی کڑوے کے ساتھ ملتا ہے اور نہ کڑوا میٹھے پانی میں دخل انداز ہوتا ہے۔ دونوں پانی اپنی اپنی رفتار کے ساتھ صدیوں سے ایک ہی جانب رواں دواں ہیں۔ کیا مجال کہ وہ آپس میں تحلیل ہو سکیں۔ ایک سائنسدان زیادہ سے زیادہ یہ توجیہہ کرسکتا ہے کہ ایک پانی بھاری اجزاء پر مشتمل ہے اور دوسرا اپنے اندر ہلکے اجزاء لیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ان کا آپس میں ملنا دشوار ہے۔ کیا سائنسدانوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ایک ہی سمندر میں چلنے والے دو پانیوں کے اجزاء میں یہ فرق قائم کرنے والی ذات کون ہے؟ پھر ہر علاقے کے سمندر میں اس بات کے بھی مشاہدات موجود ہیں کہ سمندر کے مخصوص علاقے میں دونوں پانی الگ الگ چل رہے ہیں جبکہ اس علاقہ میں داخل ہونے سے پہلے یہی پانی اکٹھا بہہ رہا ہوتا ہے اور مخصوص علاقہ سے گزرنے کے بعد ددنوں پانی پھر آپس میں تحلیل ہوجاتے ہیں جس کا مظاہرہ پاکستان میں اٹک کے قریب دریائے سندھ، بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی مشاہدات ہیں سینکڑوں میل تک چلنے والا سمندر کا پانی اوپر سے کڑوا ہے اور اس کی نچلی سطح میں بہنے والا پانی نہایت ہی میٹھا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں اس قسم کے چشمے کئی مقامات پر پائے جاتے ہیں کہ ایک ہی پہاڑ اور زمین میں ایک جگہ سے گندھک کا چشمہ ابل رہا ہے اور بالکل اس کے قریب ہی پانی کا ایسا چشمہ ہے جو برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ آخر وہ کون سا دست قدرت ہے جو دونوں پانیوں کو ایک دوسرے میں تحلیل نہیں ہونے دیتا؟ غور کیجیے! کہ کڑوئے پانی میں رہنے والی مچھلی کا گوشت کڑوا نہیں ہوتا۔ وہ ایک ہی ذات کبریاء ہے جس نے دو پانیوں کے درمیان ایک نہ دکھائی دینے والا پردہ حائل کر رکھا ہے۔ اگر کوئی حقیقت کی نگاہ سے دیکھنے والا ہو تو وہ اس ذات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتالہٰذا اسی حقیقت پر غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ [ الرّحمٰن : 19۔20] ” اُسی نے دو دریا رواں کیے۔ دونوں میں ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔“ ﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ مِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًاطَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا وَتَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن﴾ [ فاطر :12] ” اور دونوں دریا برابر نہیں ہیں ایک شیریں پیاس بجھانے والا ہے اس کا پینا آسان اور ایک شور تلخ ہے۔ ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتے دیکھتا ہے تاکہ تم اس کی (دی ہوئی) روزی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار ہو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی دو پانیوں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی میٹھا اور کڑوا پانی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: پانی کی اہمیّت اور اس کی ضرورت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پانی سے پید افرمائی ہے۔ (الانبیاء :30) 2۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال :11) 3۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 4۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 5۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 6۔ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر :37) 7۔ اللہ تعالیٰ پانی کو زیادہ گہرا کر دے تو کون ہے جو اسے اوپر لے آئے۔ (الملک :30)