وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی [٥٢] گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس بستی کا حال نہ دیکھا ہوگا ؟ لیکن (اصل معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
فہم القرآن: ربط کلام : عاد، ثمود اور دیگر قوموں کی تباہی کے ذکر کے بعد قوم لوط کی تباہی کا ذکر۔ جن قوموں کی عبرت ناک تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے ان کی اکثریت کا تعلق سرزمین عرب کے ساتھ ہے جس بناء پر عام لوگوں کے ساتھ بالخصوص اہل مکہ کو توجہ دلائی گئی ہے کہ ان اقوام کی تاریخ تمھارے سامنے ہے اور ان کے علاقے تمھاری راہ گزر پر واقع ہیں۔ یاد رہے کہ اہل مکہ کی تجارت کا عام طور پر دار ومدار انہی علاقوں کی منڈیوں پر تھا جس وجہ سے وہ قافلوں کی صورت میں مغضوب قوموں کی سرزمین سے گزرتے اور ان کے آثار قدیمہ کو دیکھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود عبرت حاصل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان موت کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لائے اور محشر کے دِن حساب اور احتساب پر یقین رکھے لیکن لوگوں کی غالب اکثریت مرنے کے بعد جی اٹھنے پر حقیقی اور عملی ایمان نہیں رکھتی۔ قوم لوط کا کردار : قوم لوط کے لوگ نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے پوری کرتے تھے۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ ان سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ تفسیر بالقرآن: قوم لوط کی تباہی کا حال : 1۔ قوم لوط ایسی برائی کے مرتکب ہوئے جو ان سے پہلے کسی قوم نے نہیں کی۔ ( الاعراف :80) 2۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74) 3۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود :78) 4۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 5۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82)