وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا : کاش! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روشن اختیار کی ہوتی۔
فہم القرآن: (آیت 27 سے30) ربط کلام : قیامت کے دن کی ہولناکیاں دیکھ کرظالموں کا اپنے آپ پر اظہار افسوس۔ قیامت کا دن ظالموں کے لیے اس قدر بھاری ہوگا کہ جس سے ظالم حواس باختہ ہوجائیں گے دیکھنے والا انھیں یوں محسوس کرے گا جیسے یہ کسی نشہ کی وجہ سے مدہوش ہوچکے ہیں حالانکہ وہ کسی نشہ کی وجہ سے مدہوش نہیں ہوں گے۔ لوگ اللہ کے عذاب کی وجہ سے حواس باختہ ہوں گے۔ (الحج :1) ظالم اس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے واویلا کریں گے اور اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے ہائے افسوس ہم ادھر ادھر کے راستے اختیار کرنے کی بجائے رسول کا راستہ اختیار کرتے۔ ہائے افسوس ہم نے رسول کو چھوڑ کر فلاں فلاں کو اپنا دوست اور خیر خواہ نہ سمجھا ہوتا۔ جس نے ہمیں قرآن مجید کی نصیحت سے دور رکھا اور گمراہ کیا یہ سب کچھ شیطان نے ہم سے کروایا۔ شیطان انسان کو بھرپور امید دلانے کے بعد دھوکہ دینے والا ہے۔ ظالموں کے اس اقرار کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی حالت میں ان کے سامنے گواہ لائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہر امت کا رسول اس کے سامنے لایا جائے گا اور رسول محترم (ﷺ) اپنے رب کے حضور شکایت کریں گے کہ اے میرے رب میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا۔ قرآن مجید کو چھوڑدینے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ سرے سے قرآن مجید کا انکار کردیا جائے یا پھر قرآن مجید پر ایمان لانے کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے۔ شیطان کی بے وفائی کا اظہار : ” اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری فریاد رسی کرنے والاہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ بے شک جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“ [ ابراہیم :22] (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ بہت سی قوموں کو بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو قعر مذلّت میں گرادے گا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہے گا کہ کاش میں رسول کا راستہ اختیار کرتا۔ 2۔ رسول اکرم (ﷺ) رب کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا۔ 3۔ شیطان انسان کو دھوکہ دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کو چھوڑ دینے کے نقصانات : 1۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف :57) 2۔ ظالموں کو اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: 100، 101) 3۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ:99) 4۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: 124، 125) 5۔ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اپنے رب کی نصیحت آموز باتوں سے منہ پھیرتا ہے۔ ایسے مجرموں سے ہم انتقام لیں گے۔ (السجدۃ:22) 6۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل :75)