وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا
اور (اے نبی)! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب [٢٥] کھانا کھاتے اور بازروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اور ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش [٢٦] کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ تو کیا (اے مسلمانو)! تم کفار کے [٢٧] (طعن و تشنیع پر) صبر کرو گے؟ اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے [٢٨]۔
فہم القرآن: ربط کلام : سورۃ الفرقان کا آغاز رسول اکرم (ﷺ) کی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل سے ہوا اب اس کا اختتام بھی توحیدو رسالت پر کیا گیا ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنے والے لوگ اس بات کو بنیاد بنایا کرتے تھے کہ ہم رسول کی رسالت کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جیسا کھانے، پینے اور کوچہ وبازار میں چلنے پھرنے والا انسان ہے۔ نبوت عظیم ترین منصب ہے اس منصب پر کوئی مافوق الفطرت ہستی فائز ہونا چاہیے تھی۔ اس اعتراض کی تائید میں کفار کبھی ملائکہ کا نام پیش کرتے اور کبھی اپنے میں سے کسی وڈیرے اور جاگیر دار کا نام لیتے تھے۔ دونوں باتوں کا قرآن مجید نے کئی مقامات پر مدلّل جواب دیا ہے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی جس بناء پر صرف یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا سبب بنایا ہے تاکہ تم حوصلہ سے کام لو اور آپ کا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ انبیاء اور نیک لوگوں کی آزمائش کے لیے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو ایک دوسرے کو بری باتیں سکھلاتے ہیں (سورۃ الانعام : آیت112) مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کے مقابلہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے متبعین صبروشکر کا مظاہرہ کریں تاکہ لوگوں پر حق وباطل کا معاملہ واضح ہوجائے۔ آیت کے آخر میں یہ فرما کر رسول کریم (ﷺ) اور آپ کے متبعین کو تسلی دی ہے کہ یہ خیال ہرگز نہ کرنا کہ حق کے مخالف جو کچھ آپ کے ساتھ کرتے ہیں وہ آپ کے رب کی نگاہ سے اوجھل ہے۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ کا رب ہر کام پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ (ابراہیم :42) مشرکین کا عجب معاملہ ہے کہ پہلے دور کے مشرک انبیاء کرام پر اس لیے ایمان نہیں لاتے تھے کہ یہ انسان ہیں۔ موجودہ دور کے مشرک کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، نبی کو بشر کہنا اس کی شان میں گستاخی ہے۔ مسائل: 1۔ تمام انبیاء و روسل بشر تھے۔ 2۔ اللہ نے بعض انسانوں کو بعض کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ 3۔ دین کی دعوت دینے والوں کو مصائب پر صبر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیاء کرام بشرتھے : 1۔ انبیاء نے فرمایا کہ ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم :11) 2۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون :24) 3۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء :154) 4۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون :33) 5۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل :43) 6۔ آپ (ﷺ) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف :110) 7۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (الکہف : 110، حم السجدۃ:6) 8۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف :109) 9۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء :186)