وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا
اور (لوگوں نے) اللہ کے سوا کئی اور الٰہ بنا ڈالے جو کوئی چیز پیدا تو کیا خاک کریں گے وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں، انھیں خود اپنے نفع و نقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں اور نہ ہی انھیں کسی کو مارنے،[٧] زندہ کرنے اور مردہ کو اٹھا سکنے کا کچھ اختیار ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی بادشاہی میں شریک نہیں کیا اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے پھر دوسروں کو اس کا شریک سمجھنا اور بنانے کا کیا مقصد؟ شرک کرنے والے کے ذہن میں کسی نہ کسی حد تک یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ فلاں زندہ یا فوت شدہ شخصیت۔ اللہ کے ہاں اتنی معتبر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے احترام اور مقام کی وجہ سے اس کی بات مسترد نہیں کرسکتا۔ اسی تصور کے پیش نظر ہر دور میں لوگوں نے ملائکہ، جنات، انبیاء میں سے کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنی اولاد کی محبت اور تعلق کی بنیاد پر اولاد کی بات مسترد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی اولاد کی سفارش رد نہیں کرتا۔ جس طرح اولاد اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے اسی طرح یہ شخصیات اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں۔ اس عقیدہ کی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر نفی کی گئی ہے۔ جن کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا ودستگیر سمجھ کر بلایا اور پکارا جاتا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی اور نہ ہی کچھ پیدا کرسکتے ہیں وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مخلوق ہونے کے حوالے سے وہ اپنے رب کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں اس حد تک بے بس اور مجبور ہیں۔ کہ وہ اپنے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی موت وحیات اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی موت کے بعد اٹھا سکتے ہیں۔ مر کر جی اٹھنے کا علم تو بڑی دور کی بات ہے انسان کتنا ہی صالح اور نیک کیوں نہ ہو اسے گہری نیند میں اتنی بھی خبر نہیں ہوتی کہ نیند کے دوران اس کے آس پاس کیا ہوتا رہا ہے۔ جو لوگ من دون اللہ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کے الفاظ سے مغالطہ دیتے ہیں کہ اس سے مراد بت ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بتوں کے بارے میں کوئی آیت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن پیدا کرے گا؟ نبی (ﷺ) کی دعا اور عقیدہ : (عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ (رض) إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللہ] ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیں معاویہ نے مغیرہ (رض) کی جانب لکھا کہ مجھے لکھ کر بھیجئے۔ جو نبی اکرم (ﷺ) سے نماز کے بعد آپ سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ مسائل: 1۔ مشرک انہیں معبود مانتے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا۔ 2۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ” اللہ“ ہے۔ 3۔ اللہ کے سوا کوئی نفع ونقصان کا مالک نہیں۔ 4۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو موت دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ 5۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندگی نہیں دے سکتا۔ 6۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کچھ پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے : 1۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل :20) 2۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف :191) 3۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی تو وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان :3) 4۔ بے شک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سب کے سب جمع ہوجائیں۔ (الحج :73) 5۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا اپنے آپ کو خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ (الطور :35) 6۔ تمام مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان :11)