وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(منافقین) اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر (رسول سے) کہتے ہیں کہ ''اگر آپ انھیں حکم دیں تو وہ ضرور (جہاد پر) نکلیں گے'' آپ ان سے کہئے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ مطلوب (قسمیں نہیں بلکہ) دستور کے مطابق [٨٠] اطاعت ہے'' اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر [٨١] ہے۔
فہم القرآن: (آیت 53 سے 54) ربط کلام : مخلص مسلمانوں کے بعد ایک دفعہ پھر منافقین کا تذکرہ۔ رسول اکرم (ﷺ) کے زمانے میں منافقوں کی یہ بھی عادت تھی کہ جب مسلمانوں پر مشکل وقت گزر جاتا تو منافق اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے رسول اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر باتکرار قسمیں اٹھا کر آپ (ﷺ) اور مسلمانوں کو یقین دلاتے کہ آئندہ کوئی مشکل وقت آیا تو ہم ہر صورت آپ کے ساتھ ہوں گے۔ اس پر رسول اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ منافقین سے فرمائیں کہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں تم نیکی کے کاموں میں سمع واطاعت کرتے رہو تم جو کچھ جس نیت کے ساتھ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے۔ ان سے یہ بھی فرمائیں کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے رہو اگر تم اس سے پھرجاؤ تو رسول کے ذمہ حق بات پہنچانا اور تمہارے ذمہ اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہے اگر تم اس طرح کروگے تو ہدایت پاؤگے۔ یادرکھو رسول کے ذمہ لوگوں تک واضح طور پر حق پہنچانا ہے قرآن مجید میں یہ بات مختلف موقعوں اور الفاظ میں واضح کی گئی ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) کا کام لوگوں تک اخلاص اور محنت کے ساتھ حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ اخلاص نیت کے ساتھ سنیں اور اپنی ہمت کے مطابق اس پر عمل کریں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَاحَوْلَھَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِیْ تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ فیتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اَخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ ھَلُمََّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا۔) [ رواہ البخاری : باب الاِنْتِہَاءِ عَنِ الْمَعَاصِی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے جب اس کا اردگرد روشن ہوگیا۔ تو آگ پر فریفتہ ہونے والے کیڑے پتنگے آکر اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں بھی تم کو آگ سے بچانے کے لئے تمہیں پیچھے سے پکڑتاہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گررہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں بھی اسی طرح ہے اس کے آخر میں ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں! میری طرف آؤ اور آگ سے بچو‘ لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جارہے ہو۔“ مسائل: 1۔ منافق قسمیں اٹھا اٹھا کر نبی اکرم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) کو اپنی سمع و اطاعت کا یقین دلاتے تھے۔ 2۔ مسلمان کو اخلاص اور پوری ہمت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے۔ 3۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کا فرمان مان لیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں۔ تفسیر بالقرآن: سروردوعالم (ﷺ) کی منصبی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری : 1۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ:151) 2۔ آپ (ﷺ) کوکتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ:2) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں ان فرائض کا تذکرہ۔ (البقرۃ:129) 4۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف :157) 6۔ آپ لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب :45)