إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
مومنوں کی تو بات ہی یہ ہوتی ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ''ہم نے سن لیا اور اطاعت [٧٩] کی'' ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 51 سے 52) ربط کلام : منافقوں کے مقابلہ میں مومنوں کا اخلاص اور کردار۔ منافق کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس سے انحراف کے راستے تلاش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مومنوں کو یہ دعوت دی جائے کہ آؤ اپنے قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرواتے ہیں تو مومنوں کی اس کے سوا کوئی بات اور خواہش نہیں ہوتی کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کروانے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور تہہ دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے اخلاص کے ساتھ بچنے کی کوشش کرے وہ اپنی مراد کو پانے ولا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی یہی خوبی تھی کہ وہ غم اور خوشی، عسر اور یسر، جنگ اور امن گویا کہ ہر حال میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والے تھے۔ صحابہ کرام (رض) نے ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی جس کے نتیجہ میں وہ دنیا اور آخرت میں بامراد ہوئے۔ ایمان کی تازگی کے لیے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو آپ اپنے ننہال یا اپنے انصاری ماموں کے پاس سکونت پذیر ہوئے آپ سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو اور آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے جو پہلی نماز ادا کی وہ عصر کی نماز تھی آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نماز ادا کی۔ ان نمازیوں میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اس کا گذر دوسری مسجد والوں کے پاس سے ہوا۔ وہ رکوع کی حالت میں تھے اس نے کہا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ کر آیا ہوں۔ وہ نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے۔۔“ [ رواہ البخاری : باب الصلاۃ من الایمان] (عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا، فَتَرَکَہَا حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، فَخَطَبَہَا فَأَبَی مَعْقِلٌ، فَنَزَلَتْ ﴿فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ﴾) [ رواہ البخاری : باب ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ﴾] ” حسن سے مروی ہے معقل بن یسار (رض) کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور طلاق کی عدّت بھی گزر گئی۔ اس کے شوہر نے دوبارہ نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل نے انکار کردیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :” اگر میاں بیوی آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو انہیں مت روکیں“ (حضرت معقل (رض) نے کہا کیوں نہیں میں اللہ کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔) مسائل: 1۔ مومن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ 2۔ مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ 3۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: کامیاب ہونے والے لوگ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ:111) 2۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن :9) 3۔ مومنوں کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان :57) 4۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ کھلی کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ :30) 5۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف :12) 6۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہوا۔ (آل عمران :185) 7۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: 72، 79، 100)