وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
یہ (منافق) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فریق (اطاعت سے) منہ پھیر [٧٥] لیتا ہے حقیقتاً یہ لوگ ایماندار نہیں۔
فہم القرآن: (آیت 47 سے 48) ربط کلام : صراط مستقیم پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرئے مومن یہی کچھ کرتے اور مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر انسان کو حکم ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صراط مستقیم کو جاننے کی کوشش کرے جو اخلاص کے ساتھ صراط مستقیم جاننے کی کوشش کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی ہدایت اور اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے گا۔ لیکن منافق کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبانی کلامی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن جب دین کے معاملہ میں آزمائش آجاۓ یا اسے شریعت کے خلاف چلنے پر مفاد حاصل ہورہا ہو تو وہ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے بالخصوص ایسے لوگوں کو کسی قضیہ کے وقت اس بات کی دعوت دی جائے کہ آؤ اس کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرلیتے ہیں تو یہ لوگ اس بات سے منہ پھیر لیتے ہیں یہی حالت نبی اکرم (ﷺ) کے زمانے میں منافقین کی تھی۔ تنازعہ کے وقت بلایا جاتا کہ مسائل: 1۔ منافق محض زبان سے اپنے ایمان کا اقرار کرتا ہے۔ حقیقتاً ایماندار نہیں ہوتا۔ 2۔ منافق کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے تنازع کا حل شریعت کے مطابق کروانا پسند نہیں کرتا۔