يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو
فہم القرآن : (آیت 278 سے 279) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ سود خوروں کو آخری انتباہ۔ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دینے کے بعد ایک دفعہ پھر دلرُبا اور عزت افزا لقب کے ساتھ مخاطب کیا جارہا ہے۔ اے میرے مومن بندو! سو دکامعمولی اور عارضی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے دائمی سکون، اطمینان اور میرے ہاں اجر پانے کے لیے مجھ سے ڈرو اور جو کچھ سود کے بقایا جات ہیں انہیں ترک کردواگر تم حقیقتاً میرا حکم ماننے اور مجھ پر ایمان لانے والے ہو۔ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم سود سے کنارہ کش ہوجاؤاگر تم نے اس نعمت کے باوجود سود نہ چھوڑا تو یاد رکھو یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔ ہاں اگر تم تائب ہوجاؤ تو پھر اصل مال لینے کا تمہیں پورا پورا حق ہے۔ نہ ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سود خور پر ظلم کرے گا۔ بلکہ اس کا معنٰی ہے کہ سود معاشی ظلم ہے جس کا رد عمل ظلم ہوا کرتا ہے۔ سود قانونی اور معاشی جرم ہی نہیں بلکہ اس سے انسان اخلاق باختہ ہوجاتا ہے۔ سود خور فقط منافع کی نظر سے دیکھتا، بولتا اور معاملات کرتا ہے۔ اس میں دن بدن انسانی ہمدردی ختم ہوجاتی ہے۔ ہر دور اور معاشرے میں سینکڑوں واقعات ایسے ملتے ہیں کہ سود خور نے مصیبت زدہ حقیقی بھائی کو قرض حسنہ دینے کے بجائے سود پر رقم دی اور وہ بیچارہ کنگال سے کنگال ہوتاچلا گیا۔ حکومت کے نظام میں تو ہزاروں واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ سودی قرضہ کی وجہ سے غریبوں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں، مکانات گروی ہوئے یہاں تک کہ انہیں کئی کئی سال جیل میں رہنا پڑا حالانکہ انہوں نے ذاتی مجبوری اور حقیقی ضرورت کے لیے بینک یا حکومت کے کسی مالیاتی ادارے سے قرض لیا تھا۔ کیا پسماندہ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا، انہیں مالی سہارا دینا، ان کو وسائل فراہم کرنا، بیماروں کا علاج کروانا اور تعلیم کا انتظام کرنا حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ؟ لیکن غریبوں، معذوروں، مجبوروں اور بیماروں کے ساتھ عملی ہمدردی کی بجائے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑدیے جاتے ہیں۔ اس عمل کو اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف جنگ قرار دے رہے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا مذہب اور حکومت ہے جو غریبوں اور مجبوروں کی اس قدر خیر خواہ ہو کہ ان پر ہونے والی زیادتی کو براہ راست اپنے آپ پر ظلم تصور کرے؟ یہ خیر خواہی تو صرف دین اسلام میں ہی پائی جاتی ہے کاش غریب لوگ اسلام کے سایۂ عاطفت میں آکر اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں۔ اس فرمان کے آخر میں حکم دیا ہے کہ اے صاحب ثروت حضرات! کسی پر ظلم نہ کرو تاکہ تم پر بھی ظلم نہ کیا جائے۔ کسی معاشرے اور قوم میں جب سود خوروں کی بہتات ہوجائے تو پھر غریب عوام کے لیے اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں رہتا کہ مظلوم کے ہاتھ ظالم کے گریبان تک پہنچیں، پھر یہ لوگ استحاصلی طبقہ کے محلات اور فیکٹریوں پر حملہ آور اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں روس، یوگو سلاویہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب غریب لوگ سرمایہ داروں کے خلاف سینہ سپر اور منظم ہوئے تو پھر انہوں نے نہ صرف امیروں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا بلکہ کیمو نزم کے نام پر ایک نیا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ نظام غیر فطری اور پہلے نظام سے زیادہ ظالمانہ تھا۔ اس لیے نہ صرف یہ نظام ناکام ہوا بلکہ روس جیسی عظیم مملکت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اس طرح ان قوموں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا۔ لہٰذا سودی نظام قوم اور معاشرے کے لیے مہلک ہے۔ انہی اخلاقی ومعاشی برائیوں کی وجہ سے سودی نظام کو اپنے آپ پر ظلم کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ گناہ کون کون سے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘ جادو کرنا‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیم کا مال کھانا‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن‘ مومن‘ بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر سود اور اس کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے۔ 2۔ سود نہ چھوڑنے والے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ 3۔ سود سے توبہ کے بعد اصل مال وصول کیا جاسکتا ہے۔ 4۔ سود خور نہ ظلم کریں اور نہ ان پر ظلم ہو۔