أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے (اور فضا میں) پر پھیلائے ہوئے [٦٨] پرندے بھی، یہ سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ہر مخلوق کو اپنی [٦٩] نماز اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 41 سے 42) ربط کلام : ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے اور اس نور سے کافر محروم ہیں جبکہ اس نور ہدایت کے سبب ہر چیز اپنی عبادت اور ذمہ داری کو پہچانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان بالخصوص کافر کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا ” اللہ“ کے باغی اور منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلائے اڑتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی نماز اور ذکر کو جانتا ہے اور اے لوگو ! جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے بھی اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کے لیے ہے اور ہر کسی نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اور پرندوں کی نماز اور تسبیح پڑھنے کے بارے میں کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ نماز سے مراد ہر چیز کے ذمہ جو کام لگا ہے وہ اسے ادا کرتا ہے حالانکہ یہاں نماز سے مراد ہر چیز کے عبادت کرنے کا طریقہ ہے اس میں سجدہ بھی شامل ہے اس عبادت کے ساتھ وہ ذمہ داری بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ہر فرد کے ذمہ لگائی ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اور بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت بھی کرتا ہے فرق یہ ہے کہ انسان کی نماز قیام، رکوع، سجود اور تشہد پر مشتمل ہے انسان کے سوا للہ تعالیٰ نے ہر چیز کی عبادت کا طریقہ اس کے حسب حال مقرر کیا ہے جس کی ادائیگی انسان کے لیے سمجھنا مشکل ہے اس لیے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ ہر چیز نماز پڑھتی ہے اور اپنے رب کی تسبیح کرنے میں مشغول ہے لیکن انسان اسے نہیں سمجھتے (بنی اسرائیل :44) جہاں تک انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کی نماز کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ نہ صرف ہر چیز اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی ہے بلکہ ان کے سائے بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدہ کرنے کے اوقات بھی بتلا دیئے ہیں کہ وہ صبح شام اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (الرعد :15) کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اور ان پر اسی کی بادشاہی ہے پہلی آیت کی ابتدا اور آخر میں ہر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے اور دوسری آیت کے آخر میں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال سے واقف ہے بلکہ ہر کسی نے اپنے اعمال کے ساتھ اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ مسائل: 1۔ انسان کو زمین و آسمان اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر غور کرنا چاہیے۔ 2۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کے حضور نماز اور تسبیح پڑھتی ہے۔ 3۔ زمین و آسمان اور ہر چیز پر حقیقی بادشاہی صرف ایک اللہ کی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے فکروعمل کو جانتا ہے اور سب نے اسی کے حضور پلٹ کر جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہرچیز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے طریقہ کے مطابق نماز پڑھتی اور عبادت کرتی ہے: 1۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر :1) 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد :15) 3۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (الحج :18) 4۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل :44) 5۔ چوپائے، فرشتے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (النحل :49) 6۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن :6) 7۔ بے شک وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206)