أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ
یا ( پھر کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہے) جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرے ہوں جسے موج نے ڈھانپ لیا ہو۔ پھر اس کے اوپر ایک اور موج ہو اور اس کے اوپر بادل ہو ایک تاریکی [] پر ایک تاریکی چڑھی ہو اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے اور جسے اللہ روشنی نہ عطا کرے [] اس کے لئے (کہیں سے بھی) روشنی نہیں ( مل سکتی )
فہم القرآن: ربط کلام : کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مثال : کفار کے اعمال ان اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ جس طرح سمندر کی بڑی، بڑی موجیں ایک دوسرے کے اوپر ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہیں اور ان موجوں کو رات کے وقت کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو گو یا کہ اندھیروں پہ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے سمندر کی تہہ سے کسی شخص کا نکلنا تو درکنار وہ اپناہاتھ اپنے سامنے کرکے دیکھنا چاہے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ یہی کفار کے اخلاق اور اعمال کی کیفیت ہے جن پر کفرو شرک کا پردہ، نبی آخر الزماں (ﷺ) کی نبوت کا انکار اور قیامت کے عقیدہ سے انحراف کے پردے پڑے ہوئے ہیں ایسے شخص کا اپنے اعمال کی قبولیت کا تصور کرنا اس شخص کی مانند ہے جو بادلوں کے اندھیرے، رات کی تاریکیوں اور سمندر کی تہہ در تہہ ظلمتوں کے نیچے اپنے ہاتھ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح اس کا اپنا ہاتھ دیکھنا ناممکنات میں سے ہے اسی طرح ہی کفار کے اعمال کی قبولیت بھی ناممکن ہے۔ جس طرح تاریکیوں سے نکلنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہے اسی طرح ہی ہدایت پانے کے لیے کتاب وسنت کے نور کی ضرورت ہے یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے جو اس کے لیے چاہت رکھتا اور کوشش کرتا ہے۔ جو اس کی چاہت اور کوشش نہیں کرتا اسے ہدایت کا نور نصیب نہیں ہوتا اور جسے ہدایت کا نور نصیب نہ ہو وہ اس کے نور کے علاوہ کہاں سے ہدایت کا نور پائے گا؟ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) [ رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل] ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے ہر جانب نور پیدا فرمادے۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ [ البقرۃ:257] ” اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور کفارکے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ مسائل: 1۔ کافر اور مشرک کفرو شرک کے اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 2۔ ہدایت نور ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے سوا کہیں سے نور حاصل نہیں ہو سکتا۔ تفسیر بالقرآن: ہدایت نور ہے اور کفرو شرک اندھیرے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم :5) 2۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ (المائدۃ:15) 3۔ اللہ نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔ (النور :35) 4۔ ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ:44) 5۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم :1)