رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
ہمیں اللہ کے ذکر، اقامت سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں۔ جس میں دل اور آنکھیں [٦٣] اکڑ جائیں گی (٣٧) (اور وہ لوگ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ) جو عمل وہ کرتے رہے ہیں اللہ انھیں ان کا بہتر دلہ اور اپنے فضل سے [٦٤] زیادہ بھی دے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 37 سے 38) ربط کلام : مساجد کو آباد کرنے اور اپنے رب کا صبح شام ذکر کرنے والوں کے اوصاف۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کی روزی کا ذمہ لیا ہے لیکن اسے حکم ہے کہ وہ جائز طریقہ کے ساتھ روزی کمانے کی کوشش کرے۔ روزی کمانے کے جائز ذرائع میں بہترین ذریعہ تجارت ہے جس میں دیانت، امانت کے ساتھ محنت اختیار کی جائے تو اللہ تعالیٰ تاجر کی روزی میں وسعت وکشادگی پیدا کرتا ہے۔ تجارت کرنے سے نہ صرف انسان کو کشادہ رزق حاصل ہوتا ہے بلکہ اس میں انسان کے وقار اور تعارف میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں تجارت کے بے شمار طریقے رائج رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہے گا منڈی اور بازار میں دکانداری کرنا بھی ایک تجارت ہے لیکن اس میں زیادہ محنت، وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے گاہگ کی بھیڑ یا منڈی کی مصروفیت ہو تو تاجر لالچ میں آکر نماز کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خصوصیت ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میرے بندے ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور لین دین کے معاملات میرے ذکر سے غافل نہیں کرتے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ہر کام کرتے وقت ان کے دل میں قیامت کے احتساب کا خوف رہتا ہے۔ قیامت کا دن ایسا ہے جس دن دل گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اور آنکھیں پھٹ جائیں گی لیکن ان اوصاف کے حامل بندوں کو نہ صرف گھبراہٹ سے مامون رکھا جائے گا بلکہ ان کو نیک اعمال کی بہترین جزا دینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مزید مالا مال فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حدوحساب عنایت کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی التُّجَّارِ وَتَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ (ﷺ) إِیَّاہُمْ] ” حضرت ابی سعید (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا راست باز اور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا“ نماز باجماعت کی اہمیّت : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں۔ میں نماز کا حکم دوں نماز کے لیے اذان دی جائے پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جاؤں۔ ان پر ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو بہترین پائے ملیں گے تو ضرور وہ عشاء کی نماز میں حاضر ہوتا۔“ زکوٰۃ کی فرضیّت : ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (ﷺ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن لوگوں کے دلوں اور آنکھوں کی کیفیت : 1۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلّت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج :44) 2۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ:12) 3۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ ( ابراہیم :42) 4۔ اور ان کے دل اٹھے جا رہے ہوں گے۔ ( ابراہیم :43) 5۔ قیامت کے دن لوگ سر اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی۔ ( ابراہیم :43)