وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جو لوگ نکاح (کا سامان) نہیں پاتے انھیں (زنا وغیرہ) سے بچے رہنا چاہیئے تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے [٥٣] غنی کردے اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مکاتبت [٥٤] کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور اس مال میں سے جو اللہ تمہیں دیا [٥٥] ہے انھیں بھی دے دو۔ اور تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہیں تو انہیں [٥٦] اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ اور جو کوئی انھیں مجبور کرے [٥٧] تو ان پر جبر کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 33 سے 34) ربط کلام : اس سے پہلے غلاموں کے نکاح کے حوالے سے ذکر ہوا، لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ ان کی آزادی کا ذکر بھی کیا جائے۔ اس آیت میں آزاد کنوارے مرد اور عورت، غلام اور لونڈی کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ کسی شرعی عذر یا غربت کی وجہ سے ازواجی رشتہ میں منسلک نہیں ہو سکتے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دامن کو بدکاری سے بچائے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ غلام کیونکہ دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اگر وہ اپنے آقا سے مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہے تو ان کے ساتھ مکاتبت کرنا لازم ہے اگر ان میں نیکی اور خیر کا جذبہ معلوم ہو تو حکم ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال سے ان کی معاونت کرو اور کوئی شخص مال کے لالچ میں اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور نہ کرے جو کوئی لونڈی کو بدکاری پہ مجبور کرے گا۔ اللہ تعالیٰ لونڈی کی مجبوری کو بخشنے والا اور اس پر رحم فرمانے والا ہے اس آیت مبارکہ میں پانچ مسائل: بیان کیے گئے ہیں 1۔ جو کسی شرعی وجہ سے نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مرد ہو یا عورت اسے ہر صورت اپنے دامن کو بدکاری سے بچانا ہوگا۔ 2 ۔کوئی غلام مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہے تو اسے آزاد کردینا چاہیے مکاتبت سے مراد وہ معاہدہ ہے جو غلام اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کے ساتھ کرتا ہے۔ باہم معاہدہ کے تحت اگر میں آپ کو رقم ادا کروں یا فلاں شرط پوری کردوں تو میں آزادہونگا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّ بَرِیرَۃَ أَتَتْہَا وَہِیَ مُکَاتَبَۃٌ قَدْ کَاتَبَہَا أَہْلُہَا عَلَی تِسْعِ أَوَاقٍ فَقَالَتْ لَہَا إِنْ شَاءَ أَہْلُکِ عَدَدْتُ لَہُمْ عَدَّۃً وَاحِدَۃً وَکَانَ الْوَلاَءُ لِی قَالَ فَأَتَتْ أَہْلَہَا فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُمْ فَأَبَوْا إِلاَّ أَنْ تَشْتَرِطَ الْوَلاَءَ لَہُمْ فَذَکَرَتْ عَائِشَۃُ ذَلِکَ للنَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ افْعَلِی قَالَتْ فَقَام النَّبِیّ (ﷺ) فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَیْسَتْ فِی کِتَاب اللَّہِ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِی کِتَاب اللَّہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَان مائَۃَ شَرْطٍ کِتَاب اللَّہِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّہِ أَوْثَقُ وَالْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ) [ رواہ البخاری : باب المکاتب ] ” نبی (ﷺ) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں۔ بریرہ میرے پاس آئی اور اس نے مکاتب کی تھی اس کے مالک نے یہ شرط عائد کی کہ اگر نو اوقیہ چاندی ادا کر دے تو تو آزاد ہے سیدہ عائشہ (رض) نے اسے فرمایا اگر تیرے مالک چاہیں تو میں اس رقم کا ایک ہی بار انتظام کیے دیتی ہوں لیکن ولاء میری ہوگی راوی کہتا ہے بریرہ اپنے مالکوں کے پاس آئی اور سیدہ عائشہ کی پیشکش کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ولاء ہماری ہوگی سیدہ عائشہ نے اس کا تذکرہ نبی (ﷺ) سے کیا۔ آپ نے فرمایا : تو اس کی رقم ادا کر دے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں اس کے بعد نبی (ﷺ) نے لوگوں میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں موجود نہیں اور ہر ایسی شرط ناجائز ہے۔ جس کا کتاب اللہ میں وجود نہ ہو اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کی کتاب برحق ہے اور اللہ کی شرائط مستقل ہیں ولاء کا حق دار وہی ہے جو آزاد کرائے۔“ 3 ۔جو غلام اپنے آقا کے ساتھ مکاتبت کرے اس کا آقا یا کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ مالی معاونت کرے تاکہ اسے غلامی سے نجات حاصل ہوجائے۔4 ۔اسلام سے قبل بعض لوگ اس لیے اپنی لونڈیاں پاس رکھتے تھے کہ ان کی بدکاری سے آمد ن حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم اور بے غیرتی سے منع فرمایا یہاں اگر وہ بدکاری سے بچنا چاہیں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں اگر وہ بدکاری سے نہیں بچنا چاہتیں تو پھر ان کی کمائی کھائی جا سکتی ہے۔ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں کسی صورت بھی بدکاری پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔5 ۔اگر کوئی ظالم اور بے غیرت آقا اپنی لونڈی کو کسی کے ساتھ بدکاری کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ بے چاری نہ چاہنے کے باوجود اس کام میں ملوث ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اسے معاف فرمائے گا۔ غلام کو سزا دینے کی بجائے آزاد کردینا چاہیے : ( عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ ضَرَبَ غُلَامًا لَہٗ حَدًّا لَمْ یَاْتِہٖ اَوْ لَطَمَہٗ فَإِنَّ کَفَّارَتَہٗ اَنْ یُّعْتِقَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا‘ آپ فرمارہے تھے جس شخص نے اپنے غلام کو حد لگائی حالانکہ کہ اس نے وہ غلطی نہیں کی یا اس کو طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ مالک اسے آزاد کر دے۔“ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) فرمایا۔۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے زیردست کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے بھائی کو اس کے ماتحت کر رکھاہو‘ تو وہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسی طرح کا پہنائے جیسے خود پہنتا ہے اور اس سے اتنا کام نہ لے جو اس کے لیے مشکل ہو۔ اگر اس سے مشکل کام لے تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔“ [ رواہ البخاری : باب ما ینھی من السب واللعن] ” حضرت ابی ہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا میں تین آدمیوں کے بارے میں جھگڑا کروں گا۔ 1 ۔ایسا آدمی جس نے میری بیعت کرنے کے بعد توڑ دی کی۔ 2 ۔جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت حاصل کی۔ 3 ۔جس نے کسی آدمی کو مزدور رکھا اس سے کام پورا لیا اور اجرت نہ دی۔“ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع] 1۔ آزاد آدمی کو غلام بنانا یا فروخت کرنا حرام ہے۔ اس بنا پر کسی باپ کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو فروخت کرے۔ مذکورہ بالا اختصار کے ساتھ پیش کئے گئے۔ (تفصیل کے لیے پانچویں پارے کی پہلی آیات کی تفسیر دیکھیں۔) مسائل: 1۔ آدمی کو ہر صورت بے حیائی اور بدکاری سے بچنا چاہیے۔ 2۔ غلام اپنے آقا سے مکاتبت کرنا چاہے تو اس کے ساتھ مکاتبت کرنا لازم ہے۔ 3۔ مکاتبت کرنے والے غلام کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیے۔ 4۔ لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنا گناہ ہے۔