يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا [٣٢] دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا [٣٣] حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے [٣٤] حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
فہم القرآن: (آیت 27 سے 28) ربط کلام : تہمت اور ہرقسم کی برائی سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو معاشرتی اصول بتلائے گئے ہیں۔ اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں ایک دوسرے کے گھر بلا اجازت جانا عیب تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے معاشرے کو بے حیائی اور بدگمانیوں سے پاک رکھنے کے لیے ایسے اصول جاری فرمائے کہ اگر مسلمان ان اصول کی پاسداری کریں تو مسلمان معاشرہ بے شمار برائیوں اور ہر قسم کی بے حیائی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس سے پہلے زبان، ہاتھ اور پاؤں کے حوالہ سے بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ انسان ان سے کیا کیا کام لیتا رہا۔ اب یہ حکم ہوا ہے کہ اے مسلمانوں اپنے گھروں میں بلا اجازت نہ جایا کرو اجازت ملنے پر گھروالوں کو سلام کہو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہو اگر تم کسی کے ہاں جاؤ اور اسے نہ پاؤ تو اس کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو۔ یہاں تک کہ تمہیں اجازت دی جائے اگر تمہیں لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو تمہیں واپس ہوجانا چاہیے اس طرح واپس ہونا تمہارے لیے بہت ہی بہتر بات ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو پوری طرح جاننے والا ہے کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اس سے اجازت لینا ضروری ہے اور اجازت کے دو طریقے حدیث رسول (ﷺ) سے ثابت ہیں۔1۔ دروازہ کھٹکھٹا یا جائے اندر سے آواز آنے پر سلام کہا جائے۔2 ۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے اونچی آواز سے سلام کہا جائے اگر اندر جانے کی اجازت نہ ملے تو خوش دلی کے ساتھ واپس پلٹ جانا چاہیے۔ یہاں گھروں کے لیے اپنے گھر کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جس سے یہ سمجھنا مقصود ہے کہ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے گھر اور عزّت کو اپنا گھر اور عزت سمجھنا چاہیے۔ جس طرح ہر غیور مسلمان اپنے گھر اور اہل خانہ کے بارے میں سوچتا اور چاہتا ہے دوسرے کے گھر اور اہلخانہ کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات ہونے چاہیں۔ (عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) سَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ أَسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی فَقَالَ نَعَمْ قَال الرَّجُلُ إِنِّی مَعَہَا فِی الْبَیْتِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) اسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا فَقَال الرَّجُلُ إِنِّی خَادِمُہَا فَقَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) اسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاہَا عُرْیَانَۃً قَالَ لاَقَالَ فَاسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا) [ موطا امام مالک : باب الاستئذان] ” حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے ہوئے بھی اجازت طلب کروں، آپ نے فرمایا ہاں! آدمی کہنے لگا میں اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا میں اس کا خدمت گزار ہوں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا پھر بھی اجازت طلب کرو کیا تو اسے عریاں حالت میں دیکھنا پسند کرتا ہے اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اس لیے اجازت طلب کرو۔“ (اس اجازت سے مراد ہے کہ ماں کی خلوت گاہ میں جانے سے پہلے بیٹے کو ایسا اشارہ ضرور دینا چاہیے جس سے اس کی ماں آگاہ ہو سکے۔ (وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ اَتَیْتُ النَّبیَّ فِیْ دَیْنٍ کَانَ عَلٰی اَبِیْ فَدَقَقْتُ البَابَ فَقَالَ مَنْ ذَا فَقُلْتُ اَنَا فَقَالَ اَنَا اَنَا! کَاَنَّہٗ کَرِھَھَا) [ رواہ البخاری : باب اِذَا قَالَ مَنْ ذَا فَقَالَ أَنَا ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مقروض تھے۔ میں نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دروازے پر دستک دی۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا‘ میں ہوں۔ آپ نے فرمایا‘ میں ہوں! میں ہوں ! گو یا کہ آپ نے اسے ناپسند کیا۔“ (دوسری روایت میں ہے کہ میں کہنے کی بجائے اپنا نام بتلانا چاہیے۔) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے اور ان سے تین بار اجازت طلب کی پھر واپس پلٹ گئے حضرت عمر (رض) نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور کہا کیا بات ہے آپ اندر کیوں نہیں آئے ؟ ابو موسیٰ (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تین بار اجازت طلب کی جائے اجازت مل جائے تو گھر داخل ہو اگر اجازت نہ ملے تو واپس پلٹ جائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس حدیث کو کون جانتا ہے اگر شہادت نہ لایا تو میں تجھے فلاں فلاں سزا دوں گا۔ حضرت ابو موسیٰ مسجد میں انصار کی ایک مجلس میں آئے اور کہنے لگے میں نے عمر بن خطاب کو بتلایا کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سناکہ آپ نے فرمایا کہ اجازت تین بار طلب کی جائے اگر مل جائے تو گھر میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس پلٹ جائے عمر (رض) بن خطاب نے مجھے کہا اگر تصدیق کے طور پر میرے پاس کوئی صحابی نہ لایا میں تو تجھے فلاں فلاں سزا دوں گا۔ آپ میں سے کوئی اس حدیث کے بارے میں جانتا ہے تو میرے ساتھ چلے انہوں نے ابو سعید خدری (رض) کو کہا کہ ان کے ساتھ جاؤ۔ ابو سعید خدری (رض) عمر میں چھوٹے تھے انہوں نے حضرت عمر (رض) بن خطاب کے سامنے اس حدیث کی تصدیق کی حضرت عمر نے ابو موسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ کو کسی قسم کی تہمت نہیں دیتا لیکن میں خدشہ محسوس کرتا ہوں کہ لوگ نبی (ﷺ) کی حدیثیں بنانا نہ شروع کردیں۔“ [ موطا امام مالک : باب الاستئذان] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (ﷺ) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (ﷺ) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔“ 5 ۔دروازے کے دائیں بائیں کھڑا ہونا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا أَتَی بَابَ قَوْمٍ لَمْ یَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَاءِ وَجْہِہِ وَلَکِنْ مِنْ رُکْنِہِ الأَیْمَنِ أَوِ الأَیْسَرِ وَیَقُول السَّلاَمُ عَلَیْکُمُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَذَلِکَ أَنَّ الدُّورَ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا یَوْمَئِذٍ سُتُورٌ) [ رواہ ابوداؤد : باب الاستیذان] ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) جب کسی کے دروازے پر جاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ دروازے کی دائیں جانب یا بائیں جانب کھڑا ہوتے اور سلام کہتے اس دور میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے۔“ مسائل: 1۔ کسی کے گھر بلا اجازت داخل نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ اجازت ملنے پر پہلے سلام کہنا چاہیے۔ 3۔ گھر والا نہ ملنا چاہے تو واپس لوٹ آنا چاہیے۔