وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں،[٢٧] مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انھیں چاہئے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : سورۃ النور کا مرکزی عنوان اخلاق ہے اور اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ اگر کسی کو غریب سمجھ کر اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تو ذاتی رنجش کی بنیاد پر اس کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والوں کے ہم زبان ہونے والے صحابہ میں حضرت مسطح (رض) بھی شامل تھے حضرت مسطح سیدنا صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مفلس تھے جس کی وجہ سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے ساتھ مسلسل مالی تعاون کیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے صدیقہ کائنات (رض) پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے قسم اٹھائی کہ آئندہ اس شخص کے ساتھ تعاون نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسائل کی کشادگی عطا فرمائی ہے ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور مہاجرین کی مدد کرنے سے انکار کریں انہیں معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اے مسلمانو! کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ جونہی یہ فرمان نازل ہوا حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے اس بات کا اظہار کیا کہ کیوں نہیں میں تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کا طلبگار ہوں اس کے ساتھ ہی حضرت مسطح کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا عہد فرمایا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّہُ قَالَ أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَتُعْطِیَ مَنْ مَنَعَکَ وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَکَ) [ رواہ احمد : مسند سہل بن معاذ بن انس ] حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا فضائل میں سے یہ سب سے بڑی فضیلت والی یہ بات ہے کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے جو تجھ سے قطع تعلق کرتا ہے۔ تو اسے دے جو تجھے دینے سے انکاری ہے اور اس سے درگزر کرے جو تجھے گالی گلوچ دیتا ہے۔“ ﴿الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [ آل عمران :134] ” وہ لوگ جو خوشحالی اور تنگی دستی میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ایسے نیکو کاروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ مخیر حضرات کو ذاتی رنجش کی بناء پر مستحق لوگوں کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ رشتہ دار، مساکین اور مہاجرین کے ساتھ تعاون کرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ مخلص مسلمان سے غلطی سرزد ہوجائے تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ 4۔ لوگوں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: زیادتی کرنے والوں کو معاف اور درگزر کرنا : 1۔ اے پیغمبر (ﷺ) زیادتی کرنے والوں کے ساتھ درگزر کیجئے۔ ( الاعراف :199) 2۔ اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تم کو معاف کرے تو تم بھی دوسروں کو معاف کردیا کرو۔ ( النور :22) 3۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ ( آل عمران :134) 4۔ درگزر کرنے سے انسان کو تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ ( البقرۃ:237) 5۔ آپ انہیں معاف کریں اور درگزر کا رویہّ اختیار کریں حتیٰ کہ اللہ کا حکم آجائے۔ ( البقرۃ:109) 6۔ زیادتی کا بدلہ ہے جو کوئی معاف کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ ( الشوریٰ :40)