الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(ان لوگوں کے برعکس) جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔[٣٩٢] حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ [٣٩٣] اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھاچکا سو کھاچکا،[٣٩٤] اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : سودی نظام صدقہ کی تحریک میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہے لہٰذا سود خور کا انجام بیان کرنے کے بعد سود اور تجارت کا فرق بتلایا گیا ہے۔ سود کو قدیم زمانے سے ربا کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ ربا کا معنٰی ہے اضافہ یا زیادتی۔ فارسی میں اس کو سود کہتے ہیں جس کا مطلب ہے فائدہ یا اضافہ۔ انگلش میں اس کا نام (USURY) ہے۔ ایسا معاملہ جس میں سرمایہ کار کو مہلت کی بنا پر اپنی رقم پر منافع ملے۔ یہ کاروبار انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی سطح پر ہو، رباتصور ہوگا۔ سود کا دھندا پہلی اقوام میں بھی پایا جاتا تھا جیسا کہ یہود کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ وہ سود کھانے اور کھلانے والی قوم تھی حالانکہ تورات میں انہیں سختی کے ساتھ اس دینی اور معاشی جرم سے منع کیا گیا تھا۔ (النساء :161) عیسائیوں کے متعلق انجیل میں موجود ہے کہ ان کا ایک گروہ ہیکل سلیمانی میں بیٹھ کر سود کا دھندا کیا کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک دفعہ ان کے کاروبار کو یہ کہہ کر الٹ ڈالا تھا کہ تم کیسے ناہنجار لوگ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اور مقدس گھر میں بھی اس جرم سے باز نہیں آتے۔ ہندؤوں کی پرانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سودی کاروبار کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ دارا شکوہ نے ایک پنڈت سے گفتگو کرتے ہوئے اس سے سود کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا کہ ہمارے مذہب میں بھی اسی طرح سود حرام ہے جس طرح دوسرے مذاہب میں اس کی حرمت کا ذکر ہوا ہے۔ افلاطون نے اپنی کتاب ” جمہوریہ“ میں سودی کاروبار کو مکھیوں کے چھتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح شہد کی مکھیوں میں کچھ ایسی مکھیاں ہوتی ہیں جو شہد بنانے کے بجائے دوسری مکھیوں کے بنائے ہوئے شہد کو کھاجاتی ہیں۔ جب یہ چوری مکھیوں کی ملکہ کے نوٹس میں آتی ہے تو وہ اس مکھی کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یہی صورت حال معاشرے کے ساتھ سود خور کی ہے لہٰذا افلاطون کہتا ہے کہ سود خور کو فوری طور پر قتل کردینا چاہیے۔[ معارف القرآن] عربوں کے ہاں دونوں طرح کا سود رواج پاچکا تھا ذاتی غرض اور مجبوری کے وقت یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے سود پر رقم حاصل کرنا۔ حضرت عباس (رض) (رض) حرمت سود نازل ہونے سے پہلے اس کام میں پیش پیش تھے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الحج، باب حجۃ النبی (ﷺ) ] سود کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ جسے اپنے رب کی نصیحت پہنچے اور سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اور اس کا سابقہ معاملہ اللہ کے حوالے ہوگا۔ یہاں واضح طور پر معافی کا اعلان نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جو گزر گیا سو گزر گیا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ یہ معاف کردینے ہی کا ایک انداز ہے لیکن سود کے جرم کے پیش نظر واضح طور پر معافی کا اعلان نہیں کیا تاکہ سود خوروں کو اس جرم کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ آئندہ اس جرم سے بچتے رہیں۔ جو اس کے باوجود سودی دھندہ کریں گے۔ وہ یقینا جہنم میں پھینکے جائیں گے اور انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہٗ وَشَاھِدَیْہِ وَقَالَ ھُمْ سَوَاءٌ) [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا وموکلہ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے سود کھانے، کھلانے اور گواہی دینے والوں پرلعنت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب برابرہیں۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) رَأَیْتُ اللَّیْلَۃَ رَجُلَیْنِ أَتَیَانِیْ فَأَخْرَجَانِیْ إِلٰی أَرْضٍ مُّقَدَّسَۃٍ فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا عَلٰی نَھْرٍ مِّنْ دَمٍ فِیْہِ رَجُلٌ قَائِمٌ وَعَلٰی وَسْطِ النَّھْرِ رَجُلٌ بَیْنَ یَدَیْہِ حِجَارَۃٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِیْ فِی النَّھْرِ فَإِذَا أَرَاد الرَّجُلُ أَنْ یَّخْرُجَ رَمَی الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِیْ فِیْہِ فَرَدَّہٗ حَیْثُ کَانَ فَجَعَلَ کُلَّمَا جَآءَ لِیَخْرُجَ رَمٰی فِیْ فِیْہِ بِحَجَرٍ فَیَرْجِعُ کَمَا کَانَ فَقُلْتُ مَاہٰذَا فَقَالَ الَّذِیْ رَأَیْتَہٗ فِی النَّھْرِ آکِلَ الرِّبَا) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب آکل الربا وشاھدہ وکاتبہ] ” حضرت سمرۃ بن جندب (رض) کہتے ہیں اللہ کے نبی (ﷺ) نے فرمایا رات میں نے دیکھا میرے پاس دو آدمی آئے اور وہ مجھے ایک مقدس زمین کی طرف لے گئے ہم چلتے رہے حتیٰ کہ ہم ایک خونی نہر پر پہنچ گئے۔ ایک آدمی اس کے اندر تھا اور دوسرا آدمی باہر کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ نہر میں کھڑا شخص جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا آدمی اس کے منہ پر پتھر مار کر واپس کردیتا۔ جب بھی وہ نکلنا چاہتا اسے باہر والا آدمی پتھر مار کر واپس لوٹا دیتا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ فرشتے نے جواب دیا خون کی نہر میں کھڑا شخص سود خور ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا أَیْسَرُھَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہٗ ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا سود کے گناہ کے ستر درجات ہیں۔ سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح جیسا عمل کرے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے کڑک سنی اور بجلی دیکھی اس کے بعد ہم ایسی قوم پر گزرے جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانات کی طرح بڑھے ہوئے تھے اور ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے بھی نظر آرہے تھے۔ میں نے جبریل امین (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں۔“ [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین ] صدقات کی ترغیب، احکامات اور آداب بیان کرنے کے بعد سود کی حرمت ومذمت کے احکام جاری فرمائے گے کیونکہ سود انفرادی اور اجتماعی معیشت کی تباہی کا بڑا سبب اور جذبۂ ایثار وہمدردی اور باہمی تعاون کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ سودکی حرمت اس نظریۂ باطل کی مذمت سے شروع کی گئی جس کا سود خور صدیوں سے پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں۔ سود خور حرص وہوس کی وجہ سے دماغی طور پر اس قدر غیر متوازن ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے خبث باطن کی وجہ سے اس حکم کی ایسی تاویل کرتا ہے جو کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اور اس کا استہزاء کرنے کے مترادف ہے۔ سود خور کی پہلی سزا یہ ہوگی کہ قبر سے اٹھتے ہی یہ ایسی حرکات کرے گا کہ لوگ دیکھتے ہی پہچان جائیں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ باغی اور قومی مجرم ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا۔ اس کی حواس باختگی کو شیطان کے خبط کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اندازہ کیجیے جس شخص کے اوپر شیطان مسلط ہوجائے کیا اس سے کسی بھلے کام کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اس پر یہ سزا اس لیے مسلط ہوگی کہ یہ دنیا میں کہا کرتا تھا کہ تجارت اور سود میں کوئی فرق نہیں حالانکہ تجارت اور سود میں مماثلت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تجارت اور سود میں فرق : 1تجارت میں نفع ونقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ سود میں بظاہر نقصان کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔ 2تجارت میں منافع کا تعین نہیں ہوتا۔ سود میں منافع کی حد مقرر ہوتی ہے۔ 3تجارت میں نفع ونقصان کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ سود میں پہلے دن ہی نفع کی وصولی کے لیے وقت مقرر کرلیا جاتا ہے۔ 4تجارت میں کسی سودے پر ایک ہی دفعہ منافع لیا جاتا ہے۔ سود میں بار بار منافع وصول کیا جاتا ہے۔ 5تجارت میں دونوں طرف سے کچھ نہ کچھ محنت ہوتی ہے۔ سود میں صرف سود ادا کرنے والا ہی محنت کرتا ہے۔ 6تجارت دونوں طرف سے لوگوں کے روز گار کا ذریعہ بنتی ہے۔ سود میں ایک طرف سے ہی آدمی شریک ہوتا ہے۔ 7تجارت کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ سود اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ 8تجارت کرنے کا حکم اور اس میں برکت ہے۔ سود حرام اور اس میں برکت نہیں ہوتی۔ 9تاجر صدقہ کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ سود خور لوگوں کا خون نچوڑ نے سے خوش ہوتا ہے۔ 10تجارت ملک وقوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ سود تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ 11صدقہ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ سود خورمجرم ہے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ 12نیک تاجر صدیقین اور شہداء کا ساتھی اور جنتی ہے۔ سود خور شیطان کا ساتھی اور جہنمی ہے۔ مسائل : 1۔ سود خور قیامت کے دن پاگلوں کی طرح کھڑے ہوں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے سود حرام اور تجارت جائز قرار دی ہے۔ 3۔ نصیحت قبول کرنے والے سے اللہ تعالیٰ در گزر فرماتا ہے۔ 4۔ نصیحت سننے کے باوجود گناہ کرنے والا دوزخ میں جائے گا۔ تفسیربالقرآن : سودکی تباہ کاریاں : 1۔ سود حرام ہے۔ (البقرۃ: 275، آل عمران :130) 2۔ اللہ سود کو مٹانا چاہتا ہے۔ (الروم :39) 3۔ سودخوروں کی اللہ و رسول سے جنگ ہے۔ (البقرۃ:279) 4۔ سود کی حرمت کے بعد سود کھانے کی سخت سزا ہے۔ (البقرۃ:275)