لَّوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ
پھر یہ تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لاسکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں [١٧] لاسکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 13 سے 14) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : مسلمانوں کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ تہمت لگانے والے سے ثبوت طلب کریں۔ کسی پاکدامن مرد یا عورت پر تہمت لگ جائے تو مومنوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اس تہمت پر یقین کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی بجائے تہمت لگانے والے سے چار گواہوں کا مطالبہ کریں اگر وہ شریعت کے مقرر کردہ معیار اور ضابطے کے مطابق چار گواہ پیش نہیں کرتا تو وہ شریعت کی نظر میں جھوٹا ہے۔ اس پر عدالت کی ذمہ داری ہوگی کہ ایسے شخص کو مجمع عام میں اسّی (80) کوڑے لگوائے تاکہ اس کی زبان درازی کی اسے ٹھیک ٹھیک سزا مل سکے اور مسلمانوں کی عزت وحرمت ایک دوسرے سے محفوظ رہے۔ کیونکہ یہ واقعہ صحابہ اکرام (رض) کے دور میں ہوا اور اس میں چند مسلمان ملوث ہوئے اور یہ پہلا واقعہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے اگر اللہ کا تم پر دنیا اور آخرت میں فضل نہ ہوتا تو اس تہمت درازی کی وجہ سے تم پر عظیم عذاب نازل ہوتا۔ یہ اس کے فضل کا نتیجہ ہے کہ اتنے عظیم جرم میں ملوث ہونے کے باوجود اس نے تمہیں توبہ و استغفار کا موقعہ دیتے ہوئے عظیم عذاب سے محفوظ فرمایا۔ صحابہ (رض) کی عظمت : (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیَقُوْلُوْنَ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیُقَالُ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْْْْْْ ثُمَّ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیُقَالُ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْ (متفق علیہ)۔ وَفِیْ رِوَایَہٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یُبْعَثُ مِنْھُمُ الْبَعْثُ فَیَقُوْلُوْنَ اُنْظُرُوْا ھَلْ تَجِدُوْنَ فِیْکُمْ اَحَدًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَیُوْجَدُ الرَّجُلُ فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یُبْعَثُ البَعْثُ الثَّانِیْ فَیَقُوْلُوْنَ ھَلْ فِیْھِمْ مَنْ رَّاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (ﷺ) فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یُبْعَثُ الْبَعْثُ الثَّالِثُ فَیُقَالُ انْظُرُوْا ھَلْ تَرَوْنَ فِیْھِمْ مَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (ﷺ) ثُمَّ یَکُوْنُ الْبَعْثُ الرَّابِعُ فَیُقَالُ اُنْظُرُوْاھَلْ تَرَوْنَ فِیْھِمْ اَحَدًارَاٰی مَنْ رَاٰی اَحَدًا رَاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (ﷺ) فَیُوْجَدُالرَّجُلُ فَیُفْتَحُ لَہٗ۔) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الصَّحَابَۃِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ] حضرت ابو سعید خدری (رض) کابیان ہے کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : مسلمانوں پر ایسا وقت آئے گا‘ کہ ان کا ایک گروہ۔ اللہ کے راستے میں لڑائی کرے گا۔ جہاد کرنے والے پوچھیں گے‘ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کو رسول اللہ (ﷺ) کی صحبت نصیب ہوئی ہو ؟ وہ جواب دیں گے‘ ہاں۔ چنانچہ اس صحابی کی برکت سے ان کو فتح نصیب ہوگی۔ پھر مسلمانوں پر ایسا وقت آپڑے گا کہ ان کا ایک گروہ۔ اللہ کے راستے میں لڑائی کرے گا۔ پوچھا جائے گا‘ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کو اصحاب رسول کی صحبت حا صل ہوئی (یعنی تابعی ہے)؟ وہ جواب دیں گے ہاں۔ تو ان کو فتح نصیب ہوجائے گی۔ پھر مسلمانوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ ان کی ایک جماعت جہاد فی سبیل اللہ کرے گی۔ پو چھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کو کسی اصحاب رسول کے ساتھی یعنی تابعی کی صحبت میسر آئی ہو یعنی تبع تابعی ہے ؟ بتایا جائے گا‘ ہاں۔ تو وہ بھی فتح یاب ہوں گے۔ مسلم کی دوسری روایت ہے۔ مسلمانوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا جائے گا۔ وہ کہیں گے دیکھو تم میں کوئی صحابی رسول ہے ؟ چنانچہ وہ صحابی پائیں گے تو انہیں فتح حاصل ہوگی۔ پھر دوسرا لشکر بھیجا جائے گا تو لوگ دریافت کریں گے کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے کسی صحابیِ کو پایا ہو؟ چنانچہ ان کو کامیابی حاصل ہوگی۔ پھر تیسرا لشکر بھیجا جائے گا تو لوگ پوچھیں گے کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جو صحابی رسول کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہو ؟ وہ ایسا شخص پائیں گے اور وہ فتح یاب ہوں گے۔ پھر چوتھا لشکر بھیجا جائے گا۔ ان سے پوچھا جائے گا‘ کیا تم میں صحابہ کرام کے شاگردوں کا کوئی شاگرد ہے ؟ تو وہ ایسا شخص پائیں گے۔ تو فتح سے ہمکنار ہوں گے۔ مسائل: 1۔ تہمت لگانے والے پر لازم ہے کہ وہ چار عادل گواہ پیش کرے ورنہ اسے اسّی کوڑے لگائے جائیں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) پر خاص فضل اور خصوصی رحمت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن: صحابہ کرام (رض) کا مرتبہ و مقام : 1۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ کا ایمان امت کے لییمعیار ہے۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلۃ:22) 4۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13)