لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
جب تم نے یہ قصہ سنا [١٥] تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں [١٦] کیوں نہ کہہ دیا کہ ''یہ تو صریح بہتان ہے''
فہم القرآن: ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اگر کسی پاکدامن عورت یامرد پر بدکاری کی تہمت لگ جائے تو مومن مرد اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ پاکدامن مرد اور پاکدامن عورت کا ماضی سامنے رکھ کر کھلے الفاظ میں تردید کریں کہ یہ تہمت اور الزام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان خطاکار ہے اور اس سے غلطی ہونے کا امکان ہے لیکن انسان کا ماضی بالخصوص بدکاری کے معاملے میں مستقبل کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ زنا ایسا فعل ہے جو یکدم سرزد نہیں ہوتا چند ایک واقعات چھوڑ کر ہر معاشرے میں زنا سے پہلے آنکھ مچولی، قربت اور اس قسم کی حرکات کاسرزد ہونا لازمی امر ہے اس لیے قرآن مجید میں ﴿ولاَ تَقْرَبُو الزِّنَا ﴾(بنی اسرائیل :32) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس بنیاد پر مومن مردوں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھا کریں کیونکہ بدگمانی سے غیبت اور الزام تراشی کی ابتدا ہوتی ہے جس سے ایک طرف پاکدامن شخص کا کردار تارتار ہوتا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں نفرت اور لڑائی اور بے حیائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ آیات صدیقہ کائنات حضرت عائشہ (رض) کی برأت کے لیے نازل ہوئیں اس لیے ارشاد ہوا کہ مومنوں کافرض تھا جونہی سروردوعالم (ﷺ) کی زوجہ مطہرہ (رض) پر تہمت لگی تو مومن بیک زبان بول اٹھتے ﴿ ھٰذَا اِفْکُ ٗ مُّبِیْنُ ﴾ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ تہمت اور بکواس کے سوا کچھ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نصر نے رسول اللہ (ﷺ) سے یہ روایت بیان کی آپ نے فرمایا اچھا گمان بہترین عبادت ہے۔“ [ رواہ ابو داود : باب فی حسن الظن] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِم (ﷺ) یَقُولُ مَنْ قَذَفَ مَمْلُوکَہُ وَہْوَ بَرِیءٌ مِمَّا قَالَ، جُلِدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ کَمَا قَالَ) [ رواہ البخاری : باب قَذْفِ الْعَبِیدِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ابو القاسم (ﷺ) کو فرماتے ہیں سنا آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے غلام پر بہتان لگاتا ہے اور غلام اس کام سے بری ہو۔ قیامت کے دن الزام لگانے والے کو کوڑے لگائے جائیں گے یا وہ اپنا دعویٰ سچ ثابت کرے گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِسْتَأْذَنَ رَھْطٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ عَلَی النَّبِیِّ فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ فَقُلْتُ بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ فَقَالَ یَاعَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الِرّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ قُلْتُ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَلَیْکُمْ وَلَمْ یَذْکُرِالوَاوَ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ۔ قَالَتْ اِنَّ الیَھُوْدَ اَتَوُا النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکَ قَالَ وَعَلَیْکُمْ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَھْلًا یَا عَائِشَۃُ عَلَیْکِ بالِرّفْقِ وَایَّا کِ وَالعُنْفَ وَالفَحْشَ قَالَتْ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ اَوَلَمْ تَسْمَعِیْ مَا قُلْتُ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِیْ فِیِْھِمْ۔ وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِیَّ) [ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمٍ۔ قَالَ لَاتَکُوْنِیْ فَاحِشَۃً فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے رسول معظم (ﷺ) کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور آکر السام علیکم کہا (کہ تم ہلاک ہوجاؤ۔) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے ان کے جواب میں کہا تم پر ہلاکت ہو ! اور لعنت ہو! یہ سن کر آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نرمی پسند کرنے والا ہے اور تمام کاموں میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ آپ نے سنا نہیں، جو انہوں نے کہا ؟ ارشاد فرمایا اس لیے میں نے کہہ دیا : اور تم پر ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم پر ہو۔ یعنی لفظ واؤ(اور) نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) بخاری کی ایک روایت میں ہے‘ حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ یہودی نبی محترم (ﷺ) کے پاس آئے انہوں نے کہا السام علیکم یعنی آپ تباہ ہوجائیں۔ آپ نے جواب دیا بلکہ تم پر ایسا ہو۔ عائشہ (رض) نے کہا‘ تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ یہ سن کر رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! نرمی اختیار کرو۔ تیز گفتگو اور بدزبانی سے اجتناب کرو۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : آپ نے ان کے کلمات نہیں سنے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تو نے میری بات نہیں سنی! میں نے ان کی بد دعا کا جواب دے دیا ہے اور ان کے بارے میں میرے کلمات منظور ہوئے ہیں۔ ان کے کلمات میرے بارے میں قبول نہیں ہوئے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ اے عائشہ! تجھے بری گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل: 1۔ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان کرنا چاہیے۔ 2۔ صالح کردار آدمی پر الزام لگے تو اس کی تائید نہیں کرنا چاہیے۔