الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ اور اہل ایمان پر یہ کام [٦] حرام کردیا گیا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : بدکار آدمی اور عورت کے لیے اخلاقی اور معاشرتی سزا۔ بدکاری میں شہرت رکھنے والے شخص کا نکاح کسی پاکدامن عورت سے کرنے کی بجائے زانیہ عورت یا کسی مشرکہ سے ہوسکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت بدکاری کی شہرت رکھتی ہو تو اس کا نکاح کسی زانی یا مشرک آدمی سے ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو مومنوں پر حرام قرار دیا ہے۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول اس طرح نقل کیا ہے۔ مرثد (رح) بن ابی مرثد غنوی مسلمان قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے جایا کرتے تھے۔ ایک رات حضرت مرثد ایک قیدی کو مکہ والوں کی قید سے نکالنے کے لیے مکہ پہنچے۔ رات کے وقت ایک دیوار کے سایہ میں چھپے بیٹھے تھے کہ عناق نامی عورت نے اسے پہچان لیا اس نے مرثد (رح) کو پہلے سے آشنا ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ خلوت کی دعوت دی لیکن حضرت مرثد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اب میرے اور تیرے درمیان اسلام رکاوٹ بن گیا ہے یہ بات سنتے ہی عناق نے شور مچایا جس کے نتیجے میں مرثد (رض) وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے تلاش کرنے والوں نے انہیں تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب تلاش کرنے والے واپس چلے گئے تو مرثد (رض) نے مسلمان قیدی کو جیل سے نکال کر مدینہ کی راہ لی۔ مدینہ پہنچ کر نبی محترم (ﷺ) سے واقعہ عرض کیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ کیا میں عناق کے ساتھ نکاح کرسکتا ہوں؟ جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ زانی شخص کسی زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے اسی طرح زانیہ عورت کسی زانی یا مشرک آدمی سے نکاح کرے۔ اس آیت کے صحابہ کرام (رض) نے دو مختلف مفہوم لیے ہیں صحابہ کرام کی ایک جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ کسی شخص نے زنا کیا ہو اس کے ساتھ نکاح کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) کی دوسری جماعت کا خیال ہے اگر وہ تائب ہوجائیں تو ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز ہوگا۔ جن صحابہ کا نقطہ نظر ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح آپس میں نہیں ہوسکتا انہوں نے اس آیت کے آخری الفاظ سے دلیل لی ہے۔ جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے انہوں نے ان الفاظ کا معنٰی یہ لیا ہے کہ مومنوں کے لیے بدکاری کرنا حرام ہے۔ یہاں زانی کی مثال مشرک کے ساتھ اس لیے دی گئی ہے کہ جس طرح زانی شخص اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا ہے اسی طرح ہی مشرک اعتقادی حدود سے تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے جس طرح شادی شدہ زانی اپنی منکوحہ پر اکتفا نہیں کرتا اور زانیہ عورت اپنے خاوند پر مطمئن ہونے کی بجائے اس کی موجودگی میں غیروں کے ساتھ منہ کالا کرتی ہے۔ اسی طرح مشرک اور مشرکہ اپنے خالق، رازق اور مالک پر مطمئن ہونے اور اس کی خالص بندگی کرنے کی بجائے غیروں کے ساتھ ناطہ جوڑتے اور ان کے آستانے پر جاتے ہیں۔ لہٰذا زانی اور مشرک عملی طور پر ایک ہی جیسا کردار رکھتے ہیں۔ مشرک اعتقاد کے حوالے سے آوارہ مزاج ہوتا ہے اور زانی سوچ اور کردار کے اعتبار سے آوارہ کردار ہوتا ہے اس آیت میں یہ بھی بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کو بدکاری سے بھی نفرت ہے اسی طرح ہی اسے شرک سے بھی نفرت ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زنا کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ 2۔ مشرک اور زانی فکری اور عملی آوارگی کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زانی اور زانیہ کے آپس کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مومنوں کو مشرکوں کے ساتھ رشتہ ناطہ نہیں کرنا چاہیے : 1۔ زانی مرد زانیہ اور مشرکہ عورت کے ساتھ ہی نکاح کرے۔ اور مومنوں کے لیے انہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ (النور :3) 2۔ مشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرو حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ (البقرۃ:221) 3۔ اے ایمان والو! کفر کو ایمان پر ترجیح دینے والوں کے ساتھ ناطہ نہ جوڑو۔ ( التوبہ :23) 4۔ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ ( المائدۃ:51) 5۔ اے ایمان والو! انہیں دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا بنارکھا ہے۔ (المائدۃ:57)