وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل [١٠٩] نہیں، تو اس کا حساب اس کے پروردگار کے سپرد ہے۔ ایسے کافر کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔
فہم القرآن: (آیت 117 سے 118) ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا، پوری کائنات کا بادشاہ، عرش کریم کا رب ہونے کی بناء پر اکیلا ہی معبودِ بر حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو الٰہ بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے کی بجائے مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے کی اس کے بعد کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، شان اور صفات کے حوالے سے اکیلا اور سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ مشرک دلیل نہ ہونے کے باوجود نہ صرف شرک جیسے سنگین جرم میں ملّوث ہوتا ہے بلکہ شرک کی حمایت میں بحث و تقرار بھی کرتا ہے یہاں تک مرنے مارنے پر اتر آتا ہے ایسی صورت میں ایک داعی کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ مشرک سے الجھنے کی بجائے یہ کہہ کر اپنا کام کرتا جائے کہ تیرا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہّ ہے اس عقیدہ کا انکار کرنے والے یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔ اے پیغمبر (ﷺ) آپ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحم مانگتے رہیں یقیناً آپ کا رب بڑا رحم کرنے والاہے۔ سورۃ المومنون کی ابتداء ان الفاظ سے ہوئی تھی کہ مومن فلاح پا چکے اس کا اختتام اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ حقیقت بتلانے کے بعد نبی کریم (ﷺ) اور آپ کی امت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحمت مانگتے رہو وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکا عذاب دیے جانے والے سے پوچھیں گے اگر تیرے پاس زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو کیا تو عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں وہ چیز دے دیتا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے دینا میں بہت ہی معمولی مطالبہ کیا تھا۔ جب تو آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا‘ لیکن تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔“ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ] توبہ واستغفار کی فضیلت اور فوائد : اللہ کی رضا کا حصول : گنا ہوں کی معافی کا ذریعہ، اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوں سے نجات ملتی ہے، دنیا میں کشادگی اور آ خرت میں جنت کے باغات نصیب ہوں گے، سچی توبہ سے سیئات حسنات میں تبدیل ہوجاتی ہیں، توبہ و استغفار کرنے سے آدمی اللہ کے غضب سے محفوظ ہوجاتا ہے لہٰذا ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ، استغفار کرتے رہیے۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں ابر باراں ہوئے عرصہ گزر چکا تھا وہ ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کیا کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں، فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش برسانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ﴿إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا۔﴾ [ نوح : 10۔11] ” اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والاہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔“ مسائل: 1۔ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا انکار کرنے والا فلاح نہیں پائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نہ ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے سوا کسی کو پکارا جائے : 1۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس :106) 2۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء :213) 3۔ مشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ نے مدفون بزگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ (فاطر :13) 4۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء :36)