سورة المؤمنون - آیت 99

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(یہ لوگ اپنی کارستانیوں میں لگے رہیں گے) جہاں تک کہ ان میں سے کسی کو جب موت آئے گی تو کہے گا : پروردگار! مجھے دنیا میں [٩٥] واپس بھیج دے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 99 سے 101) ربط کلام : شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا سکھلانے کے بعد اب پھر کلام کارخ کفار کی طرف ہوتا ہے۔ منکرین حق سروردوعالم (ﷺ) سے باربار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے اس سے پہلے ان کے اس مطالبہ کا جواب دیا گیا بعد اب منکرین کو اس وقت کا احساس دلایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں میں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ اپنے رب سے آرزو کرتا ہے کہ کاش مجھے دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے اور میں جو کچھ کرتا رہا اس کی بجائے نیک اعمال کروں گا۔ لیکن اس وقت اسے جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وہ دل ہی دل میں روتا اور آہ وزاریاں کرتا ہے مگر اس کی آہ وزاریاں اور چیخ وپکار سوائے واویلا کی حیثیت نہیں ہوتی۔ مرنے والے کے لیے قیامت کے دن تک دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا جاتا ہے۔ ان آیات میں حق کے منکر کی کیفیت ذکر کی گئی ہے قرآن مجید اور حدیث میں کافر، مشرک، منافق اور خدا کے نافرمان کی موت کے وقت جو اس کی کیفیت ہوتی ہے اس کی بہت سی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہاں صرف ایک، دو احادیث پیش کی جاتی ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے۔ قبرستان پہنچے تو ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول کریم (ﷺ) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب دنیا کو چھوڑ کر کافر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے۔ وہ اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کے غصہ اور غضب کے سامنے پیش ہو۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے۔ اس کی روح کو نکال کر جس بوری میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح مردہ لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے۔ وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے؟ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے برے ناموں سے اس کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں۔“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے افسوس میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ کذّاب ہے۔ اس کا بچھونا آگ بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس جہنم گرمی اور بدبو آتی ہے اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم اس طرح کی شکل والے کون ہو جو اتنی بری خبر کے ساتھ آئے ہو۔ وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں۔ کافر فریاد کرتا کہ اے میرے رب قیامت نہ قائم کرنا۔“ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب ] (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (ﷺ) کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کا نافرمان موت کے وقت دنیا میں پلٹ جانے کی آرزو کرتا ہے۔ 2۔ موت کے بعد کسی شخص کو دنیا میں پلٹ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 3۔ اللہ کے نافرمان کی آہ و بکا و واویلا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کوئی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتا : 1۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ:254) 2۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : 34تا36) 3۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : 41، 42) 4۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار :19) 5۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم :31) 6۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس :18) 7۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ:166) 8۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود :20) 9۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت :22)