سورة المؤمنون - آیت 63

بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِّنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ اس بات سے تو ان کے دل سخت غافل ہیں اور اس غفلت کے علاوہ ان کے اور بھی کئی (برے) اعمال ہیں [٦٤] جو وہ کر رہے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 63 سے 64) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دل ہر وقت اپنے رب اور قیامت کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں ان کے مقابلے میں مشرک اور متکبر لوگوں کے دل غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔ انسان کے دل سے اپنے رب کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ختم ہوجائے تو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ غفلت کا شکار شخص نیک کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا۔ غفلت کا بنیادی سبب دنیا کی عیش وعشرت اور مال کی ہوس ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے خوف سے عاری اور فکر آخرت سے لا پرواہ طبقہ معاشرے میں ترقی اور فیشن کے نام پر ہر قسم کی برائی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اکثر اوقات یہ طبقہ اس وقت تک ہوش کے ناخن نہیں لیتا جب تک ان پر عذاب نہیں آتا یا کسی سخت مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے یا یہ لوگ کسی سخت مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر آہ وزاری اور چیخ وپکار کرتے ہیں۔ اس وقت زبان حال انہیں پکار پکار کر کہتی ہے۔ اب چیخو، چلاّؤ لیکن اللہ تعالیٰ تمہاری مدد نہیں کرئے گا اور یہی صورت حال ان کی موت کے وقت ہوتی ہے یہ دل ہی دل میں آہ و زاری کر رہے ہوتے ہیں تو موت کے فرشتے انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج جس طرح چاہو آہ وزاریاں کرو تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ یہاں لوگوں کی غفلت کو ان کے اعمال نہ کرنے کی وجہ قرار دیا گیا۔ غفلت کرنے والوں میں سب سے پیش پیش ہمیشہ مال دار طبقہ ہوا کرتا ہے کیونکہ عوام میں انہی کے ذریعے عیاشی اور فحاشی اور شریعت سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ عذاب تو سب پر آتا ہے لیکن مال دار طبقہ کو احساس دلانے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ ہم ان کے سرمایہ داروں کو پکڑتے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾) [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ تا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1۔ غافل لوگ اکثر برے کام کرتے ہیں۔ 2۔ مال دار طبقہ کی اکثریت غفلت کی زندگی گزارتا ہے۔ 3۔ اللہ کا عذاب نازل ہوجائے تو پھر انسان کی آہ وزاری کام نہیں آتی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے وقت کوئی مدد کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن: عذاب کے وقت کوئی مددگار نہیں ہوتا : 1۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران :4) 2۔ عذاب کے وقت کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکے گا۔ ( الملک :28) 3۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء :56) 4۔ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ خیر خواہ اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب :65) 5۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء :145) 6۔ اس دن کافر لوگ جان لیں گے جب ان کے چہروں اور پشتوں سے آگ ہٹانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔ (الانبیاء :39) 7۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدۃ:72) 8۔ کافروں کے چہروں پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (یونس :27)