بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو طویل مدت [٣٩] تک سامان زیست سے فائدہ پہنچایا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ پھر کیا یہی غالب [٤٠] رہیں گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : لوگوں کا اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرنے کا بنیادی سبب۔ اللہ تعالیٰ جب کسی فرد یا قوم کو طویل مدت تک اسباب عطا کرنے کے ساتھ ڈھیل دیتا ہے تو وہ اس کے شکر گزار بندے بننے کی بجائے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ناراض نہیں جس وجہ سے دنیا کے اسباب و وسائل، اقتدار اور وقار دئیے جا رہا ہے۔ خاص طور پر یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہے تو نافرمان لوگوں کا یہ اعتقاد بن جاتا ہے کہ واقعی ہی ہم میں ایسے اوصاف ہیں جس بناء پر ہم وسائل، اقتدار اور وقار کا حق رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے لوگوں پر اچانک برے حالات و ارد کردیے جاتے ہیں جن کا یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہی صورتحال اہل مکہ کی تھی۔ وہ کئی نسلوں سے بیت اللہ کی وجہ سے دنیا میں بالعموم اور عرب میں بالخصوص نہایت وقار کی زندگی بسر کر رہے تھے اور وسائل کے اعتبار سے بھی عرب کے قبائل میں متمول سمجھے جاتے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سرور دو عالم (ﷺ) کی دعوت قبول کرکے اپنے رب کے شکر گزار بندے بن جاتے لیکن وہ آپ (ﷺ) کی مخالفت پر دن رات کمربستہ ہوگئے۔ جوں جوں وہ مخالفت میں تیز ہو رہے تھے اسی رفتار سے دن بدن اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بالاخر وہ وقت بھی آیا جب ان کے لیے مکہ کی زمین تنگ ہوگئی اور انھیں اسلام کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ اسی صورتحال کو یہاں بیان کی گیا ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو فائدہ دیا اور پھر طویل مدت تک انھیں مہلت دی۔ یہ مدت ان کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے وبال ثابت ہوئی۔ کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے حالانکہ یہ اپنے آپ کو غالب سمجھ رہے۔ ارضیات کے سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ زمین رقبہ کے لحاظ سے بھی دن بدن تنگ ہو رہی ہے۔ ( اللہ اعلم) (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ قَالَ فَأَیُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاءَ عَمَلُہُ قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی طُولِ الْعُمُرِ لِلْمُؤْمِنِ] ” حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکرہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) لوگوں میں سے بہترین کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال اچھے ہوں۔ اس نے پھر عرض کی اللہ کے محبوب لوگوں میں سے بدترین کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ طویل عمر اور اسباب کی کشادگی عنایت فرمائے تو نافرمان بننے کی بجائے اپنے رب کی تابعداری کرنا چاہیے۔ 2۔ طویل عمر نیک آدمی کے لیے مفید اور برے شخص کے لیے وبال کا باعث ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین کی وسعتوں کو انسان کے لیے تنگ و تاریک کر دے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی شخص اور قوم غالب نہیں آسکتی۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ ہی غالب ہے : 1۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے۔ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:117) 3۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام :61) 4۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر :1) 5۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال :49) 6۔ اللہ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ:21) 7۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ :20)