سورة الأنبياء - آیت 39

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کاش یہ کافر لوگ اس وقت کا علم رکھتے جب وہ آگ سے نہ تو اپنے چہروں [٣٦] کو بچا سکیں گے اور نہ اپنی پشتوں کو اور نہ ہی انھیں کہیں سے مدد مل سکے گی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 39 سے 41) ربط کلام : جس عذاب کے لیے کفار جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی ہولناکیوں کی ایک جھلک۔ رسول معظم (ﷺ) سے کفار عذاب اور قیامت کا بار بار مطالبہ کرتے تھے۔ عذاب کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے کفار کو ان کے مطالبہ سے یہ کہہ کر ڈرایا اور روکا جا رہا ہے کہ اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ رب ذوالجلال کا عتاب اور عذاب کس قدر سخت اور شدید تر ہوتا ہے تو یہ بھول کر بھی ایسا مطالبہ نہ کریں۔ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ جب ان پر رب ذوالجلال کا عذاب نازل ہوگا تو وہ اپنے آپ کو بچانا چاہیں تو ہرگز بچا نہیں سکیں گے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی مذاق ہوتا رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ جب مذاق کرنے والوں کو عذاب نے آلیا تو اس وقت انھیں کوئی پناہ دینے والانہ تھا۔ جہاں تک جہنم کے عذاب کا معاملہ ہے اس کی آگ اس قدر سخت اور تیز ہوگی کہ وہ ان کے چہروں اور پیٹھوں کو جھلس دے گی۔ اس وقت کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اس دن عذاب ان پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔ ظالم بدحواس ہوجائیں گے نہ اسے ٹالنے کی ان کے پاس طاقت ہوگی اور نہ انھیں مہلت ملے گی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] نبی اکرم (ﷺ) سے مذاق کرنے والوں کا دنیا میں انجام : ﴿اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ﴾ [ الحجر :95] ” یقیناً ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نپٹ لیں گے۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (ﷺ) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (ﷺ) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے تھے ؟“ (تفسیر رازی : جلد 8، سورۃ التوبہ) مسائل: 1۔ جہنم کا عذاب مجرموں کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا اور اس وقت ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ 2۔ قیامت اچانک نازل ہوگی جس کو دیکھ کر ظالم بدحواس ہوجائیں گے۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق کرنے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت اور ان کا مذاق اڑانے والوں کا انجام : 1۔ آپ سے پہلے بھی انبیا ءسے مذاق کیا جاتا رہا تب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ (الانبیاء :41) 2۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ :65) 3۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( الحجر :11) 4۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( یٰس :30)