سورة الأنبياء - آیت 30

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ [٢٥] تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار [٢٦] چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کے کے خلاقی) پر ایمان نہیں لاتے؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جس اِلٰہ کے سامنے کوئی دَم نہیں مار سکتا اس کی الوہیت کے دلائل۔ اللہ تعالیٰ کے واحد اِلٰہ ہونے کا جو لوگ انکار کرتے ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان آپس میں خلط ملط تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جدا جدا کردیا اور اس نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ اتنے ٹھوس دلائل کے باوجود لوگ پھر بھی اس کے واحد اِلٰہ ہونے پر یقین نہیں کرتے۔ پہلے پارے میں یہ بتلایا ہے کہ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا کیونکہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا“ وہ کام من و عن اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:117) ﴿ رَتْقًا﴾ کا معنی ہے کہ آپس میں خلط ملط اور جڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو حکم دیا کہ تم اوپر نیچے سات آسمان بن جاؤ اور زمین کو حکم ہوا کہ تہہ بہ تہہ سات زمینوں کی شکل اختیار کرلے چنانچہ ایسا ہوگیا قرآن مجید کے الفاظ سے یہ عمل بظاہر بڑا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک اس عمل کی جو جزیات سامنے آئی ہیں ان پر غور کیا جائے تو آدمی کی عقل نہ صرف دنگ رہ جاتی ہے بلکہ اس عمل کا احاطہ کرنے سے پہلے ہی سوچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اِلٰہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ دیا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ بعض اہل علم نے ان الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے جاندار، چیزیں لکھی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ﴿کُلُّ شَیْ ءٍ﴾ کے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی ” ہر چیز“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاندار چیزیں پانی کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں اور ہر جاندار کے وجود میں پانی کی خاص مقدار کا ہونا لازم ہے ورنہ اس کے وجود کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ لیکن بعض جمادات کے اندر بھی پانی کی ایک مقدار موجود ہوتی ہے اور جن چیزوں کے اندر پانی کے اثرات دکھائی نہیں دیتے ہوسکتا ہے کہ ان کے میٹریل میں بھی بنیادی طور پر پانی کا عنصر موجود ہو۔ قرآن مجید نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ زمین سے پہلے اس کائنات میں پانی ہی پانی تھا اور اللہ تعالیٰ کا عرش بھی پانی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم سے سات زمینیں اور سات آسمان موجودہ شکل میں معرض وجود میں آئے اور اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہوا۔ (ھود :7) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () إِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْتِی أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ الأَرْضَ فَیَقُول اللَّہُ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ اللَّہَ فَإِذَا أَحَسَّ أَحَدُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ ذَلِکَ فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللَّہِ وَبِرُسُلِہِ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے وہ پوچھتا ہے آسمان کو کس نے پیدا کیا بندہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر پوچھتا ہے زمین کو کس نے پیدا کیا بندہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ جب آدمی کے ذہن میں یہ خیال آئے تو وہ کہے۔ میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔“ زمین و آسمانوں کی ابتدا کس طرح ہوئی : سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concentrated and condensed) حالت میں تھا۔ ﴿اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَاوَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ [ سورۃ الأنبیاء :30] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلّاقی) پر ایمان نہیں لاتے ؟“ یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان ﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ﴾ کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery Nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ مزید تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد 2سورۃ الاعراف آیت 54کی تفصیل ملاحظہ کریں۔ مسائل: 1۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں موجودہ شکل میں بننے کا حکم دیا اور یہ اسی طرح ہی بن گئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا تھی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمان کی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل :3) 2۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے اور مٹیریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ :116) 3۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء :30) 4۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ:12) 5۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف :54)