سورة الأنبياء - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الانبیاء کا تعارف : ربط سورۃ: سورۃ طٰہٰ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے کہ اگر یہ لوگ حقائق ماننے کے لیے تیار نہیں تو اے نبی (ﷺ) آپ انہیں فرمادیں کہ میں بھی انتظار کرتا ہوں اور تم بھی انتظار کرو کہ کون سیدھے راستے پر ہے اور کس کا انجام اچھا ہوتا اور کون ” اللہ“ کی گرفت میں آتا ہے۔ سورۃ الانبیاء کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ برے انجام کے منتظر ہیں تو انہیں فرما دیں کہ ممکن ہے کہ دنیا میں تمہیں پوری زندگی ڈھیل مل جائے لیکن قیامت تو قریب آن پہنچی ہے مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حساب و کتاب کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ سورۃ الانبیاء مکی سورۃ ہے اس کے 7 رکوع اور 112 آیات ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں بڑے بڑے انبیاء کا ذکر ہوا ہے اس لیے اس کا نام سورۃ الانبیاء رکھا گیا ہے ان کے پاس جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اسے شغل کے طور پر لیتے اور کہتے ہیں یہ تو پراگندہ خیالات ہیں جنہیں جوڑ جاڑ کر ایک عنوان اور کہانی کی شکل دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ شاعرانہ تخیّلات ہیں، جسے ہمارے جیسا آدمی بنا کر پیش کرتا ہے۔ بھلا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان، رب ذوالجلال جیسی ہستی سے ہم کلام ہوا۔ ان کی غلط فہمی اور کج بحثی کا جواب یہ کہہ کردیا گیا ہے جن لوگوں سے تم مختلف قسم کے اعتراض سیکھتے ہو انہی سے پوچھ لو کہ پہلے انبیاء کرام انسان تھے یا کوئی اور مخلوق تھے؟ وہ تو کھانے پینے والے انسان تھے ان کے مخالفوں نے بشریت کی بنا پر انبیاء کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں انہیں گلی کے تنکوں سے بھی حقیر کردیا گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ کیا انہیں ہوش نہیں کہ اگر ہم دنیا کو کھیل تماشا اور اپنی دل لگی کے لیے پیدا کرتے تو یہ تماشا ہمیں اپنے پاس کرنا چاہیے تھا یا زمین پر؟ انہیں پیدا کرنے اور انبیاء بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر حق واضح کر دیاجائے۔ سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ” اللہ“ اکیلا ہی معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی خالق ومالک، رازق اور عبادت کے لائق نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہوتا تو ان کا آپس میں دنگا وفساد ہوجاتا۔ اس کے بعد زمین و آسمانوں کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش کے حوالے سے ” اللہ“ نے اپنے وحدہ لا شریک ہونے کے ثبوت دئیے ہیں۔ اے نبی آپ کے رب نے آپ (ﷺ) کو اپنا رسول منتخب کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کی جائے۔ اسی ذات نے زمین و آسمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جو پہلے باہم ملے ہوئے تھے اور اسی نے ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار پانی پر قائم فرمایا۔ اسی نے ہر نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر کیا ہے اس نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ کیا آپ کو موت آئے گی اور آپ کے مخالف ہمیشہ رہیں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور وہی اس کا حساب لے گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جس کے رد عمل میں انہیں آگ میں جھونکا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا۔ نہ صرف ان کے لیے آگ جائے آرام اور پناہ بن گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظالموں سے بچا کر بابرکت زمین یعنی فلسطین میں قیام اور مقام عنایت فرمایا اور ان کی دعوت میں برکت دی۔ انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) جیسی عظیم المرتبت اولاد سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی مشکلات کا ذکر کیا جو بالآخراپنے رب کی مدد سے منکرین حق پر غالب آئے۔ ان کے بعد حضرت داؤد حضرت سلیمان کے اقتدار اور اختیار کا ذکر کیا گیا جس میں یہ اشارہ ہے کہ اقتدار اور اختیار حاصل ہونے کے باوجود کوئی آدمی کسی کے دل میں ہدایت داخل نہیں کرسکتا۔ ورنہ ان کی وفات کے بعد جنّات بغاوت نہ کرتے۔ پھر حضرت ایوب (علیہ السلام) کی جسمانی تکلیف کا ذکر کیا ہے تاکہ نبی اکرم (ﷺ) کو تسلّی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور جسمانی توانائی سے نوازا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نہ صرف جسمانی تکلیف میں مبتلا تھے بلکہ مال، اولاد ختم ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کی روحانی پریشانی سے بھی مدت تک آزمائے گئے مگر انہوں نے صبر کیا جس کے صلہ میں انہیں دنیا میں ہی نعمتوں سے نوازا گیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام)، حضرت ادریس (علیہ السلام)، حضرت ذالکفل (علیہ السلام)، حضرت یونس (علیہ السلام)، حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر گرامی ہوا۔ ان سب کو ایک امت قرار دیا گیا ہے جو صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی طرف بلانے والے تھے۔ اس سورۃ کے آخر میں قرب قیامت اور اس کے برپا ہونے کے وقت زمینوں و آسمانوں کی جو حالت ہوگی اس کا ہلکا سا ایک منظر پیش کیا ہے۔ دوسرے انبیاء کے ذکر کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ہم نے زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین میں اقتدار صالح لوگوں کو دیا جائے گا۔ سورۃ کے آخر میں نبی آخر الزمان (ﷺ) کو رحمۃ للعالمین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اور آپ کو یہ تعلیم دی گئی کہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کرنے والا ہے۔ لہٰذا اسی پر توکل رکھو۔