سورة طه - آیت 113

وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور طرح طرح سے وعید بیان کئے ہیں تاکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں یا ان میں غور و فکر کی عادت [٨١] پیدا ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 113 سے 114) ربط کلام : اس خطاب کے آخر میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے رسول محترم (ﷺ) کو حصول علم کے آداب اور ایک دعا سکھائی گئی ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کے براہ راست اور اولیّن مخاطب عرب تھے جن کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کرکے کفر و شرک اور ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ جس رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ کسی نسبت اور حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مقام، شان، ذات اور اپنی صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ وہی بادشاہ حقیقی ہے اس کی ملک اور حکمرانی میں نہ کائنات میں کوئی شریک کار ہے اور نہ آخرت میں کوئی شریک ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود اگر لوگ اللہ تعالیٰ کو بلاشرکت غیر اِلٰہ نہیں مانتے تو آپ کو نزول قرآن کے بارے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو اپنی حکمت کے ساتھ وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ عجلت سے کام لینے کی بجائے آپ کو اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ نزول قرآن کے بارے میں آپ کی طرف سے جلدی کرنے کا دوسرا مطلب مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کے ابتدائی دور میں آپ (ﷺ) اس غرض کے ساتھ جلدی جلد ی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ عدم ضبط کا شکار نہ ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ﴿رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ضبط قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں۔ آپ غور سے سنتے جائیں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔ (القیٰمۃ:17) سورۃ اعلیٰ میں فرمایا۔ ہم آپ پر قرآن پڑھیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے۔ [ اعلیٰ:6] (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا۔ 2۔ قرآن مجید میں لوگوں کو ان کی برائیوں پر تنبیہات کی گئی ہیں۔ 3۔ قرآن مجید باعث نصیحت ہے۔ 4۔ اللہ ذات اور صفات کے اعتبار سے سب سے بلند وبالا ہے۔ 5۔ کسی کام میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ 6۔ علم کے اضافے کے لیے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: علم اور اہل علم کی فضیلت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق :4) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن :4) 3۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن :2) 4۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ:31) 5۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ:32) 6۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ:4) 7۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ :11) 8۔ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں۔ ( الزمر :9)