وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے [٣١٥] پر راضی ہوں۔ جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے۔ یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ [٣١٦] طریقہ ہے۔ (اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس سے پہلے طلاق رجعی کا بیان جاری ہے کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی جائے اور وہ اپنی عدت گزارلے تو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے میں سابقہ خاوند رکاوٹ نہ بنے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں اگر مطلقہ عورت کی عدت گزرجائے اب میاں بیوی آپس میں اچھے انداز میں رہنے کا عزم کرتے ہوئے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ولی کو بھی اس نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے شخص کے لیے نصیحت ہے جو حقیقتاً دل کی گہرائیوں سے اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ فرمایا یہی صورت تمہارے لیے مناسب اور بہتر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھالا ہوا ہے اور وہ ایک عرصہ اکٹھے رہے ہیں اور اولاد ہونے کی صورت میں تو نہایت ہی مستحسن فیصلہ ہوگا۔ خاص کر جب انہوں نے ماضی کی تلافی اور آئندہ اچھے انداز سے رہنے کا عہد کرلیا ہو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جب کہ لوگوں کو حالات کا کماحقہ علم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسی عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ہرگز نہیں روکنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانے میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مَعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ﴾ فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں مسلمانوں کے ایک آدمی سے اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت بھی گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا‘ کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی اللہ کی قسم! اب کبھی بھی یہ تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ﴾ جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح بھی کرتا ہوں اور عزت بھی۔“ تاہم عقد ثانی کی صورت میں اگر عورت چاہے تو وہ نیا حق مہر اور شرائط مقرر کرسکتی ہے کیونکہ پہلا نکاح ختم ہوجانے کی وجہ سے دوسرے نکاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مسائل :1۔ عدّت پوری ہونے کے بعد عورتیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنا چاہیں تو انھیں روکنا نہیں چاہیے۔ 2۔ نصیحت اس شخص پر اثر انداز ہوتی ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جبکہ لوگ بہت کمعلم رکھتے ہیں۔ تفسیربالقرآن :اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ 1۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود :5) 2۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 3۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ :30) 4۔ ہر گرنے والا پتا اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام :59) 5۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن :19) 6۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام :59)